ایشیاٹک سوسائٹی،کولکاتا
۲۰مارچ ۲۰۱۲ء
جناب پروفیسر پلب سین گپتا،پریذیڈنٹ دی ایشیاٹک سوسائٹی،کولکاتا
جناب پروفیسر مِہِر کمار چکرورتی،جنرل سیکریٹری دی ایشیاٹک سوسائٹی،
محترمہ پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی صاحبہ،لائبریری سیکریٹری
دی ایشیاٹک سوسائٹی،کولکاتا
اردو کے فیض شناس ادبائے کرام،اور کلکتہ کی اس خوبصورت تقریب کے جملہ حاضرینِ کرام!
نہایت خوشی کی بات ہے کہ گزشتہ برس ۲۰۱۱ءکو سالِ فیض اور فیض صدی کے حوالے سے منانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا،وہ نئے سال ۲۰۱۲ءمیں بھی جاری ہے۔
ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتا جو ۱۷۸۴ءسے قائم شدہ ادارہ ہے اور جس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت بنتی ہے،اس کی جانب سے بھی فیض سیمینار کے انعقاد کا اہتمام کیا گیا ہے ۔فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے شاعروں،ادیبوں اور دانشوروں میں نہایت اہم مقام کے حامل ہیں۔وہ خود جتنے اچھے ترقی پسند شاعر تھے،اتنی ہی ان کی شخصیت کا بھی ایک جادو تھا۔ان کی شاعری میں مزدور،کسان ،کچلے ہوئے غریب عوام کے ساتھ محبت اور ظلم،جبر،نا انصافی کے خلاف دھیمے احتجاج کی لَے ملتی ہے۔
مختلف ادوار میں پاکستان میں ان کے لیے جینا مشکل کیا جاتا رہا۔جنرل ضیا کے دور میں ان کا جینا اتنا مشکل کر دیا گیا کہ وہ مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے بیروت چلے گئے۔وہاں”لوٹس“کے مدیر کی حیثیت سے فلسطینی کاز کو تقویت پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔عمر کے آخری حصہ میں پاکستان واپس آگئے اور تھوڑے عرصہ کے بعد وفات پا گئے۔
کولکاتا شہر کا فیض احمد فیض کے سلسلہ میں ایک خاص حوالہ بنتا ہے۔”لوٹس“کی ادارت سے پہلے انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی میں پروفیسر شپ کے حصول کی خواہش ظاہر کی تھی۔اس سلسلہ میں جیوتی باسو کی رضامندی حاصل کر لی گئی تھی لیکن اقبال چئیر کے قیام اور فیض کی تعیناتی میں معمول کی سرکاری کاروائی طویل ہو گئی۔اسی دوران فیض کو ”لوٹس“ کی ادارت کی پیش کش ہو گئی اور وہ کولکاتا کی بجائے بیروت چلے گئے۔
اس سیمینار میں فیض کے بارے میں سارے محترم مقالہ نگارر اپنے اپنے زاویے سے اپنے مقالات پیش کریں گے۔میں یہاں فیض کی شاعری سے چند تبرکات پیش کرنا چاہوں گا۔اس شاعری کو اپنے لڑکپن سے پڑھتا آرہا ہوں۔اور مجھ جیسے سینکڑوں شعراءفیض کو پسند کرکے اور ان کی شاعری سے اثر لے کر اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرتے رہے ہیں۔
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
درِ قفس پہ اندھیرے کی مُہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے اُبھرنے لگتے ہیں
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
اور اب فیض کی نظم ”شام“پیش کرتا ہوں،جسے ان کے بہت سارے نقادوں نے بھی بے حد پسند کیا ہے۔
اس طرح ہے کہ ہر اک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اُجڑا ہوا بے نور پرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر بام، ہر اک در کا دمِ آخر ہے
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ مَلے، ماتھے پہ سیندور مَلے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سِحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہوگا
آسماں آس لیے ہے کہ یہ جادو ٹوٹے
چُپ کی زنجیر کٹے، وقت کا دامن چھُوٹے
دے کوئی سنکھ دُہائی ، کوئی پایَل بولے
کوئی بُت جاگے، کوئی سانولی گھونگٹ کھولے
میرے لیے اس سیمینار میں شرکت بھی ایک اعزاز تھا،اس کی افتتاحی تقریر کے لیے مجھے موقعہ دے کر میری بہت زیادہ عزت افزائی کی گئی ہے۔اس کے لیے میں ایشیاٹک سوسائٹی کا شکر گزار ہوں۔مجھے امید ہے کہ اس سیمینار میں جو مقالات پیش کیے جائیں گے اور جو تقاریر کی جائیں گی،ان سے فیض شناسی میں پیش رفت ہو سکے گی۔
آپ سب کا بہت شکریہ!
حیدر قریشی
۲۰مارچ ۲۰۱۲ء۔۔۔کولکاتا