فیض احمد فیض کے شعری مجموعہ ”سرِ وادیٔ سینا“ میں ۱۹۶۵ءسے ۱۹۷۱ءتک کا کلام شامل ہے۔یہ کتاب غالباً ۲۷۔۱۹۷۱ءمیں شائع ہوئی تھی۔(میرے سامنے اس وقت” نسخہ ہائے وفا“کاچوتھا ایڈیشن ہے،جسے مکتبہ کارواں لاہور نے اکتوبر ۱۹۸۵ءمیں شائع کیا تھا۔اسی ادارہ نے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن مارچ ۱۹۸۴ءمیں شائع کیا تھا،جبکہ دوسرا اور تیسرا ایڈیشن علی الترتیب جولائی ۱۹۸۴ءاور مارچ ۱۹۸۵ءمیں شائع کیا تھا۔پیشِ نظر ایڈیشن میں ”سرِ وادیٔسینا“ کا سالِ اشاعت واضح نہیں ہے لیکن قیاس ہے کہ یہ مجموعہ ۱۹۷۱ءیا ۱۹۷۲میں چھپا تھا۔)اس کے آخر میں ”داغستان کے ملک الشعراءرسول حمزہ کے افکار“ کے نام سے الگ سیکشن بنا کر ان کی ۹نظموں کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ان میں سے دو نظموں ”آرزو“ اور ”ایک چٹان کے لیے کتبہ“ کوچھوڑ کر باقی سات نظموں کا ترجمہ حیرت انگیز طورپرظ انصاری کے ترجمہ سے لفظ بلفظ ملتا ہے۔ ظ انصاری کی کتاب ”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ کے نام سے دارالاشاعت ماسکو کی جانب سے سال ۱۹۷۴ءمیں شائع ہوئی تھی۔ساتوں نظموں میں سے صرف ایک نظم جس کا عنوان فیض صاحب نے ”بھائی “لکھا ہے، اس نظم کے چوتھے مصرعہ میں ”تن پہ ردائے ماتم“کی جگہ ”تن میں ردائے ماتم“ درج ہے۔ لفظ”میں“ اور” پہ“کے فرق کے علاوہ باقی ساتوں نظمیں لفظ بلفظ ایک جیسی ہیں۔
پاکستان میں بھی سرکاری ادارے کی کسی کتاب کے چھپنے میں دو تین برس عام طور پر لگ ہی جاتے ہیں جبکہ سوویت یونین کے اشاعت گھر میں ۱۹۷۴ءمیں چھپنے والی کتاب کو دو تین سال پہلے تو لازماً جمع کرا دیا گیا ہو گا۔اس زاویے سے دیکھیں تو فیض صاحب کے تراجم اور ظ انصاری صاحب کے تراجم لگ بھگ ایک ساتھ ہی سامنے آئے ہیں۔ان تراجم کو دونوں میں سے کسی ایک کا بھی سرقہ کہنا مناسب نہیں ہے،لیکن یہ توارد حیران کن ضرور ہے۔فیض صاحب کی شہرت اور عظمت رسول حمزہ کی شاعری کے کسی بھی ترجمہ سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جبکہ ظ انصاری روسی زبان پر عبور رکھنے کے باعث خود ایک ماہر ترجمہ نگار تھے،انہیں فیض صاحب کی ترجمہ کردہ نظمیں جوں کی توں اٹھا لینے کی ضرورت ہی نہ تھی۔تو پھر یہ کیا ماجرا ہے؟اس حوالے سے میں نے روس میں فیض صاحب کی بہت بڑی مداح اور ان پر بہت زیادہ کام کرنے والی ڈاکٹر لڈمیلا سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی اس سارے قضیہ پر حیرت کا اظہار کیا۔ اس سلسلہ میں ابھی تک ان کا جو موقف سامنے آیا ہے یہاں پیش کر رہا ہوں۔
”اب معاملہ کسی حد تک واضح ہونے لگا ہے۔میرے خیال میں یہ اشاعت گھر کے کسی مدیریا تالیف کرنے والے کی غضب کی غلطی ہوگی۔غالباً ظ صاحب دوسرے روسی شعراءکے اپنے تراجم چھوڑ کر روس سے چلے گئے ہوں گے۔اور جب کتاب کے چھپنے کا وقت آگیا(اُس زمانے میں کتاب کی اشاعت میں کئی برس بھی لگ سکتے تھے) تورسول حمزہ کا کلام بھی شامل کرنے کا خیال آیا ہوگا۔اور کتاب کے مدیر کو رسول حمزہ کی نظموں کے اردو تراجم ملے ہوں گے جو در اصل فیض صاحب کے تھے۔ہو سکتا ہے مدیر یا کسی بھی ذمہ دار کواردو زبان کم آتی تھی اور وہ غیر ذمہ دار انسان تھاجو لاپرواہی سے اپنا کام کرتا تھا۔اس غلطی کے بہت امکانات ہیں۔لیکن پکی بات ہے کہ تراجم فیض صاحب کے ہیں۔اور بے شک ظ انصاری خود فیض کے تراجم پر اپنا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔۔۔۔۔لیکن مجھے بہت حیرت ہے کہ اس بات پر خود ظ صاحب نے شور کیوں نہیں مچایا تھا؟وہ تو اس سے بہت چھوٹی باتوں پر یہاں طوفان برپا کرتے تھے۔ہر صورت میں انہیں یہ کتاب دیر یا سویر ملی ہی تھی اور انہوں نے اس غلطی کو ضرور دیکھا ہو گا۔ہاں میرے لیے یہی ایک پہیلی ہے۔اب پروگریسو کی کتابیں نایاب ہیں اور صرف لائبریری میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔جس کے لیے مجھے ان دنوں بالکل فرصت نہیں۔لیکن اگر آپ اس کتاب کا وہ آخری صفحہ بھی بھیجیں جس پر مدیراور سب دوسروں کے نام لکھے ہوئے ہیں،تو زیادہ آسانی سے اس غلطی کا پتہ لگایا جا سکے گا۔یہ صفحہ سب سے آخر میں روسی زبان میں ہونا چاہیے“ ۱
ڈاکٹر لدمیلا سے ہونے والی مراسلت کی ایک اور ای میل من و عن شائع کرنا ضروری ہے۔یہ ای میل اسی قضیہ کے تناظر میں ۱۹مئی کو میرے نام بھیجی گئی۔
”ڈئیر حیدر قریشی صاحب! ایک تو یہ کہ آپ”توجہ“ کے لیے شکریہ ادا کرکے مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ہماری اتنی پرانی ملاقات ہے۔پھر اتنے تکلف کی کیا ضرورت!دوسری یہ کہ میں نے آپ کی کسی بات پر کبھی توجہ نہیں دی تھی کیا؟اور آخر میں یہ کہ یہ میں ہوں جسے آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے۔آپ نے اتنی غیر معمولی بات پر میری توجہ دلائی۔
یہ کتاب(مراد ظ انصاری کے تراجم والی کتاب۔ناقل)مجھے یہاں کی لائبریری میں مل چکی ہے(انٹرنیٹ دیکھ کر)۔میں خود جا کر مدیر وغیرہ کا نام دیکھوں گی۔آپ اس سلسلہ میں مزید زحمت نہ کیجیے گا۔ ہاں میرے”مفروضے“کے حق میں مجھے ایک اور بات یاد آئی۔فیض صاحب کی کتاب”مہ و سال آشنائی“اسی اشاعت گھر،اسی اردو شعبہ کے کمرے میں تیار کی جا رہی تھی جہاں سب اردو کی کتابیں چھپنے کے لیے تیار کی جاتی تھیں۔(مہ و سال آشنائی کی اپنی کہانی ہے،اس کا ذکر میں نے فیض پر اپنی کتاب ۲میں کیا تھا)اگر آپ کو یاد ہے ”مہ و سال آشنائی“میں رسول حمزہ پر ایک باب ہے اور کتاب کے آخر میں رسول حمزہ کی انہیں سب نظموں کے تراجم بھی شامل ہیں جو” سرِ وادیٔسینا“میں شائع ہو چکے تھے اور جو فیض صاحب نے پروگریسو اشاعت گھر میں چھوڑے تھے”مہ و سال آشنائی“ میں شامل کرنے کے لیے۔اردو میں تراجم کے سارے مواد غالباً کہیںساتھ ساتھ رکھے ہوں گے۔جب ۱۵سوویت شعراءکی نظمیںچھپنے کا وقت آیا تووہی ہوا ہو گایعنی لاپرواہی سے ،مترجم کے نام دیکھے بغیر رسول حمزہ سمیت دوسرے شعراءکی نظموں کے سب تراجم اکٹھے کرکے ظ انصاری صاحب کے نام سے چھاپ دیا گیا ہوگا۔دوسری کوئی بات دماغ میں نہیں آرہی ہے۔
لیکن سب باتوں سے بڑھ کر یہ آپ کا کمال ہے کہ آپ نے اس عجیب و غریب غلطی کو دیکھ لیا۔ابھی تک کسی کی نظر اس بات پر نہیں پڑی تھی۔آپ نے واقعی کمال کیا۔ آپ کی خیر خواہ لدمیلا“ ۳
تراجم کا سارا قضیہ اپنی حد تک ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے،یہاں صرف ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں اس غلطی کی نشان دہی میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ایک مارکسسٹ مولانا نے اپنے ایک کام کے سلسلہ میں بہت سارے اقتباسات کی تلاش میں کسی سے بہت زیادہ مدد لی لیکن ان کی مدد کافراخدلانہ اعتراف نہیں کیااور اپنے کام کا سہرا اپنے ہی سر باندھے پھرتے رہے۔یہ بخیلی ہی نہیں علمی بد دیانتی بھی ہے۔میرے مذکورہ”کمال“ کی حقیقت یہ ہے کہ ۷مئی ۲۰۱۱ءکو جب میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر سے ملنے کے لیے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں گیا تو وہاں ان کے پاس ”منظوم ترجمے: ظ انصاری“دیکھنے کا موقعہ ملا اور وہیں ناصر عباس نیر کی طرف سے اس قضیہ پر فکر مندی کا اظہار ہوا۔ان کے توسط سے ان تراجم تک رسائی کے بعد میں نے بیت السبوح لائبریری فرینکفرٹ سے” نسخہ ہائے وفا“حاصل کی اور اس سب کے نتیجہ میں یہ مضمون مکمل کیا ہے۔ابھی ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر لدمیلا اس موضوع پر اپنی اپنی تحقیق کر رہے ہیں،ان کی تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد صورتحال مزید واضح ہو سکے گی۔دوسرے ادباءبھی جو اس قضیہ میں سنجیدہ اور تحقیقی نوعیت کی دلچسپی رکھتے ہیں اپنے طور پر اظہار خیال کرسکیں گے۔
اب آخر میں رسول حمزہ کی ان نظموں کے تراجم پیش کرتا ہوں جو ”سرِوادیٔسینا“ اور ”نسخہ ہائے وفا“ میں شامل ہیں۔
یہی تراجم ظ انصاری کے تراجم کی کتاب میں شامل ہیں۔میں نے اس سلسلہ میں حواشی میں ضروری نوٹ دے دئیے ہے۔
ترجمہ نگار :فیض احمد فیض
میں تیرے سپنے دیکھوں
برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں
برف گرے پربت پر،میں تیرے سپنے دیکھوں
صبح کی نیل پری،میں تیرے سپنے دیکھوں
کویل دھوم مچائے،میں تیرے سپنے دیکھوں
آئے اور اُڑ جائے،میں تیرے سپنے دیکھوں
باغوں میں پتے مہکیں،میں تیرے سپنے دیکھوں
شبنم کے موتی دہکیں،میں تیرے سپنے دیکھوں
اس پیار میں کوئی دھوکا ہے
تو نار نہیں کوئی اور ہے شے
ورنہ کیوں ہر ایک سمے
میں تیرے سپنے دیکھوں ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی
آج سے بارہ برس پہلے بڑا بھائی مِرا
اسٹالن گراڈ کی جنگاہ میں کام آیا تھا
میری ماں اب بھی لیے پھرتی ہے پہلو میں یہ غم
جب سے اب تک ہے وہی تن پہ ردائے ماتم
اور اس دُکھ سے مِری آنکھ کا گوشہ تر ہے
اب مِری عمر بڑے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے ۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا
اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے نامِ خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی
میرے پلے ذرا نہیں پڑتی ۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہ نوکِ شمشیر
میرے آباءکہ تھے نا محرمِ طوق و زنجیر
وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم
نوکِ شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوکِ شمشیر
روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم
سنگ و صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر ۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالگرہ
شاعر کا جشنِ سالگرہ ہے، شراب لا
منصب،خطاب،رُتبہ انہیں کیا نہیں ملا
بس نقص ہے تو اتنا کہ ممدوح نے کوئی
مصرع کسی کتاب کے شایاں نہیں لکھا ۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرگی جال ہے اور بھالا ہے نور
اک شکاری ہے دن،اک شکاری ہے رات
جگ سمندر ہے جس میں کنارے سے دور
مچھلیوں کی طرح ابنِ آدم کی ذات
جگ سمندر ہے،ساحل پہ ہیں ماہی گیر
جال تھامے کوئی، کوئی بھالا لیے
میری باری کب آئے گی کیا جانیے
دن کے بھالے سے مجھ کو کریں گے شکار
رات کے جال میں یا کریں گے اسیر؟ ۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسخۂالفت میرا
گر کسی طور ہر اک الفتِ جاناں کا خیال
شعر میں ڈھل کے ثنائے رُخِ جاناں نہ بنے
پھر تو یوں ہو کہ مِرے شعر و سخن کا دفتر
طول میں طولِ شبِ ہجر کا افسانہ بنے
ہے بہت تشنہ مگر نسخۂالفت میرا
اس سبب سے کہ ہر اک لمحۂفرصت میرا
دل یہ کہتا ہے کہ ہو قربتِ جاناں میں بسر ۱۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
۱:ماسکو سے ڈاکٹر لدمیلا کی ای میل بنا م حیدر قریشی۔۱۷ مئی ۲۰۱۱ءسے اقتباس
۲:پرورشِ لوح و قلم(فیض حیات اور تخلیقات) ۔تصنیف ڈاکٹر لدمیلا وسیلئیوا۔ناشراوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔کراچی
۳:ماسکو سے ڈاکٹر لدمیلا کی ای میل بنا م حیدر قریشی۔۱۹ مئی ۲۰۱۱ء
۴:نسخہ ہائے وفا:۴۶۹،۴۸۰، سرِ وادیٔسینا:۵۹،۶۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۱۹۷۴ءمیں یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔
۵:نسخہ ہائے وفا:۴۷۱، سرِ وادیٔسینا:۷۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۱۹۷۴ءمیں یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔ظ۔انصاری کے ترجمہ والی کتاب میں اس نظم کے چوتھے مصرعہ میں ”تن پہ ردائے ماتم“کی جگہ ”تن میں ردائے ماتم“ درج ہے۔
۶:نسخہ ہائے وفا:۲۷۴، سرِ وادیٔسینا:۸۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۱۹۷۴ءمیں یہ نظم ”ماں اور بیٹا“کے عنوان سے شامل ہے۔
۷:نسخہ ہائے وفا:۳۷۴، سرِ وادیٔسینا:۹۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۱۹۷۴ءمیں یہ نظم” نوکِ شمشیر“ کے عنوان سے شامل ہے۔
۸:نسخہ ہائے وفا:۴۷۵، سرِ وادیٔسینا:۱۰۱
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۱۹۷۴ءمیں بھی یہ نظم ”سال گرہ“ کے عنوان سے شامل ہے۔
۹:نسخہ ہائے وفا:۴۷۷، سرِ وادیٔسینا:۱۰۳
سرِ وادیٔسینا میں یہ نظم بلا عنوان شامل ہے، جبکہ ظ انصاری کے ترجمہ کی کتاب”منظوم ترجمے: ظ انصاری“۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۱۹۷۴ءمیں بھی یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔
۱۰:نسخہ ہائے وفا:۴۷۸، سرِ وادیٔسینا:۱۰۴
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۱۹۷۴ءمیں یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی ۔یکم جون ۲۰۱۱ءاور دو جون ۲۰۱۱ء)
یونیورسٹی جرنل الماس۔خیرپور،سندھ۔شمارہ :۱۳،مارچ ۲۰۱۲ء)