گزشتہ ربع صدی کے دوران اردو میں جو نئے نقاد ابھرے ہیں ،ان میں ناصر عباس نیّر سب سے اہم اور ذہین نقاد کے طور پر سامنے آچکے ہیں۔ان کی ذہانت نے ان کی اہمیت اس وجہ سے قائم کی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں ایک فطری نوعیت کا توازن قائم رکھتے ہیں۔اتفاق رائے کی صورت میں تحریر کو قصیدہ نہیں بننے دیتے تو اختلاف رائے کی صورت میں ایک سلیقہ اور ادبی تہذیب کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ہیں۔
میں نے ان کی تحریرمیں‘’‘’فطری نوعیت کے توازن“ کی بات کی ہے،اس کا تعلق ان کے اپنے داخل سے اور اپنے مزاج سے ہے۔وگرنہ ادب میں احتیاج اور احتیاط کے درمیان مصلحت پسندوں کے ہاں بھی توازن مل جاتا ہے لیکن ان کا توازن از خود ان کی دنیا داری کی نشان دہی کر رہا ہوتا ہے۔کراچی کے صنعتی ماحول میں ایسے ناقدین اپنی ترقی پسندی میں صنعتکاروں کے لیے کھلے دل سے گنجائش پیدا کرتے ہیں تو پنجاب کے جاگیرداری ماحول میں پلنے والے ترقی پسندوں کو جاگیرداری میں اصلاح پسندی کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔
میرا کم و بیش بیس برس سے ناصر عباس نیر کے ساتھ ادبی و شخصی رابطہ اور واسطہ ہے۔اس عرصہ میں ان سے علمی اختلاف رائے بھی ہوا،بلکہ بار بار ہوا لیکن مجال ہے ہمارے ربط باہم میں کوئی فرق پڑا ہو۔ماہیا کی بحث میں ۱۹۹۳ءمیں ہمارا بڑا واضح اختلاف رائے سامنے آیا۔در اصل میں اُس وقت ماہیا کو در پیش صورتحال کے باعث وزن کی اہمیت پر زور دے رہا تھا اور ناصر عباس نیر مستقبل کے امکانی ماہیا کو دیکھتے ہوئے اس کے مزاج پر زور دے رہے تھے۔ایک وقفہ کے بعد مابعد جدیدیت کے سلسلہ میں ہماراکھلا اختلاف رائے ہوا۔اس بار دونوں طرف ہلکی سی تلخی بھی در آئی،لیکن اس کے باوجود شخصی تنازعہ جیسی صورت پیدا نہیں ہوئی۔دوست احباب ادیبوں کے مجھ سے لیے ہوئے انٹرویوزکا مجموعہ چھپناتھا تو ناصر عباس نیر نے اس کا پیش لفظ لکھا۔ساتھ ہی مجھے کہا کہ کہیں کوئی بات ناگوار گزرے تو بتا دیجیے،یا شاید حذف کر دیجیے۔میں نے انہیں بتایا کہ کچھ بھی ناگوار نہیں گزرا۔ہم ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں گے،ایک دوسرے کو اختلاف رائے کا حق دیں گے۔چنانچہ ان کا پیش لفظ کسی ترمیم یا تبدیلی کے بغیر شائع کیا گیا۔لیکن یہ بات یہیں پر مکمل نہیں ہو رہی۔اس کے پس منظر میں ایک اہم واقعہ بھی موجود ہے۔میرے خلاف مغربی دنیا کے جعلی شاعروں،ادیبوں نے مل کر ایک بار محاذ بنایا تھا۔تب اپنی کسی ذاتی ناراضی کے باعث ڈاکٹر پرویز پروازی بھی ان لوگوںکے ساتھ مل گئے تھے۔چنانچہ انہوں نے ناصر عباس نیر اور اکبر حمیدی دونوں کو اپنے اپنے انداز میں تلقین کی کہ وہ مجھ سے قطع تعلق کر لیں۔اکبر حمیدی کو تو یہاں تک کہا کہ یا حیدر کے ساتھ تعلق رکھویا میرے ساتھ۔اکبر حمیدی نے اس کا جواب یہ دیا کہ انہیں دنوں میں اپنے نئے شعری مجموعہ کا انتساب میرے نام کرکے کتاب انہیں بھیج دی۔ ناصر عباس نیر نے تلقین کا جواب یہ دیا کہ میرے انٹرویوز کا پیش لفظ تحریر کر دیا۔ادبی دیانتداری کا تقاضا بھی پورا کیا اور اپنے استاد کی حیثیت سے پرویز پروازی کے احترام کو بھی ملحوظ رکھا۔
ہمارے درمیان اتفاق رائے کے کئی پہلو ہیں۔ادب میں فکری سطح پر آزادی۔۔۔ایسی فکری آزادی جو ہر طرح کی کٹھ ملائیت کے دباؤسے باہر آسکے چاہے وہ مارکسسٹ ملائیت ہی کیوں نہ ہو۔ادب میں صوفیانہ رویہ بھی اسی فکری آزادی سے ملتا جلتا رویہ ہے۔اور ہم دونوں اسے بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔
ناصر عباس نیر کے اب تک چھ تنقیدی مجموعے چھپ چکے ہیں۔انشائیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔۵اہم نوعیت کی کتابیں مرتب کر چکے ہیں اور اس وقت ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی میں پوسٹ ڈاکٹرل فیلو شپ کے تحت”نو آبادیاتی عہد میںرائج اردو نصابات: مابعد نوآبادیاتی تناظر“کے موضوع پر کام کر رہے ہیں۔بیس برسوں میں اتنا علمی و ادبی کام کر نا اور اس میں ایک تہذیب و توازن کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا،ان کی بہت بڑی خوبی اور کامیابی ہے ۔ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع تھا”اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات“۔اس کتاب کے ایک ایک باب میں مغربی دنیا سے سرقہ کرنے والے کتنے ہی نامورنقادوں کو شواہد کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے۔اس مقالہ میں حالی،شبلی،علامہ نیاز فتح پوری اور محی الدین زور جیسے جید لوگوں سے لے کر کلیم الدین احمد،وقار عظیم،سجاد باقر رضوی،ملک حسن اختر اور ڈاکٹر سلیم اختر جیسے آج کے معتبر لوگوںتک اردو تنقید و ادب کے کتنے ہی لوگ سرقہ کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ تاہم ناصر عباس نیر نے (چند پہلے سے موجود اور) اپنے ان انکشافات کو نہ تو شہرت کے حصول کا ذریعہ بنایا،نہ اس پر کسی قسم کی اچھل کود کی۔سب کچھ ایک سلیقے،تہذیب اور وقار کے ساتھ کیا اور اپنے کام کو زورِ بازو سے منوانے کی بجائے ادب کی تاریخ کے سپرد کر دیا۔وگرنہ میں نے تو دیکھا ہے کہ صرف کسی ایک کے ترجمہ بلا حوالہ کو نشان زد کرنے والے صاحب اپنے آپے سے باہر ہو گئے اور اس نشہ میں سرشار ہو کر پورے اردو ادب کو للکارنے لگے۔ ناصر عباس نیر نے اتنے سارے لوگوں کے سرقات کو ظاہر کرکے بھی اردو ادب کی اہمیت و افادیت کو رد نہیں کیا ۔ادب کے اچھے اور صحت مند پہلوؤں کو اپنے مضامین کے ذریعے سامنے لاتے رہتے ہیں۔وہ اس لیے بھی اس کارِ خیر میں کامیاب ہیں کہ ان کا اردو شعرو ادب کا مطالعہ گہرا ہے اور ان کی ادب فہمی بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ان کے مقالہ میں سرقات کی اتنی بڑے پیمانے پر نشان دہی کا ایک فائدہ اردو کے تخلیقی ادب کو ہو گا۔ناقدینِ کرام کی اتنی بڑی تعداد سرقہ میں ملوث پائے جانے کے بعداپنی وہ بالا دستی کھو دے گی جو انہوں نے تخلیقی ادب پر حاصل کر رکھی تھی۔اب انہیں تخلیقی ادب میں اپنی ثانوی حیثیت پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔تنقیدکی تخلیقی ادب کے مقابلہ میں ثانوی حیثیت ہی ہونی چاہیے۔
تخلیق کار کی حیثیت سے ناصر عباس نیرابھی اپنے اظہار کے پیمانے کی جستجو میںہیں۔نثری نظم اور انشائیہ کو آزمانے کے بعد اب وہ ناول لکھنے کی طرف مائل ہیں۔تحقیق و تنقید میں اپنے قابلِ ذکر کام کے ساتھ تخلیقی سطح پر ناول میں ناصر عباس نیر کے امکانی ظہور کی صورت اردو ادب کے لیے خوش کن ہو سکتی ہے ۔
انکسار ناصر عباس نیر کے مزاج کا حصہ ہے۔منکسرالمزاج لوگوں کے ساتھ زیادتی یہ ہو جاتی ہے کہ لوگ انہیںunder estimate کرنے لگتے ہیں۔ایسے لوگ جو بنیادی طور پر کسی اور شعبے کے ہوتے ہیں لیکن ادب میں در اندازی کر لیتے ہیں،وہ تو”بقلم خود“ اپنے نام کے ساتھ کئی سابقے،لاحقے لگائے رکھتے ہیں لیکن ناصر عباس نیر ادب میں اتنی گہرائی کے ساتھ کام کرنے کے باوجود خود کو ہر طرح کے سابقوں اور لاحقوں سے پاک رکھتے ہیں۔اگر کسی کا کو ئی اہم کام ہے تو خود بولے گا اور اپنا اعتراف کرائے گا۔اگر اہم کام نہیں ہے تو کمپنی کی مشہوری کے لیے جتنے پاپڑ بیل لیے جائیں،ادب کی عبادت گاہ سے کچھ نصیب نہیں ہوتا۔
ناصر عباس نیر ہمیشہ اپنے کام اور انکساری میں مست رہتے ہیں۔یہ بہت بڑی خوبی ہے جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی،جس کے حصے میں آجائے میں اسے ادبی خوش نصیب سمجھتا ہوں۔
اردو شعروادب سے وابستہ کیسے کیسے شاعر اور ادیب جرمنی میں آئے لیکن ان کا دورہ اپنے پاکستانی احباب سے ملنا،مشاعرہ پڑھنایا اپنے اعزاز میں تقریب منعقد کرانے تک محدود رہا۔اور اسی کو انہوں نے اردو ادب کی بین الاقوامیت شمار کر رکھا ہے۔ ناصر عباس نیر جرمنی میں آئے ہیں تو علم و ادب کی بین الاقوامی صورتحال کو جاننے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔فرینکفرٹ آئے تو قدیم عمارتوں کو دیکھنے کے ساتھ علم و ادب کی دنیا کے معروف”فرینکفرٹ اسکول“کو دیکھنے کی خواہش کرنے لگے۔ گوئٹے یونیورسٹی فرینکفرٹ کا وہ حصہ جہاں تھیوڈور اَڈرنو،ہربرٹ مارکوزے اور میکس ہورخی مر جیسے دانشور بیٹھا کرتے تھے اور جنہوں نے نیو مارکسزم کے حوالے سے فرینکفرٹ اسکول کی بنیاد رکھی تھی۔ہم وہاں پہنچے تو ناصر عباس نیر ان حصوں کو ایسے دیکھنے لگے جیسے وہاں ان کی بہت پرانی یادیں محفوظ ہوں۔انہوں نے ادب کی مختلف جہات سے جن علوم کو پڑھ رکھاتھا،ان علوم کے حوالے سے واقعی ان کی یادیں ہی تو وابستہ تھیں۔
میں نے نومبر،دسمبر۱۹۹۳ءکے اوراق میں اعتراف کیا تھا:
”ناصر عباس نیر کو میں اردو تنقید میں ہوا کا تازہ جھونکا سمجھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ مستقبل میں اردو تنقید میں جو بیش قیمت اضافے ہوں گے ان میں ناصر عباس نیر کا اہم حصہ ہوگا“
یہ میرے اس مضمون کے ابتدائی جملے تھے جس میں ناصر عباس نیر سے اختلاف کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی ہمارے درمیان اختلاف کے کئی پہلو سامنے آئے لیکن ہمارا مکالمہ ادب کے دائرے میں جاری رہا ۔ اب کہ میری اٹھارہ انیس سال پہلے کہی ہوئی بات کو باقی دنیا بھی ماننے لگی ہے تو میں ناصر عباس نیر کو ایک دوستانہ مشورہ دیناچاہتا ہوں۔اقتدار کے کوریڈورزمیں ادب کے حوالے سے کام کرنے کا موقعہ ملے تو اچھی بات ہے ، تاہم اقتدار والوں کی اغراض کو ادب پر کبھی حاوی نہ ہونے دیں۔ اگر ادب میں اقتدار والوں کے مقاصد اور دوسری اغراض فوقیت اختیار کرنے لگیں تو جینوئن لکھنے والے ادبی برکت سے محروم ہو کر قلم کی بے برکتی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
میری دعا ہے کہ ناصر عباس نیر بہت آگے تک جائیں لیکن میرے اس دوستانہ مشورے کو ضرور یاد رکھیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔