(مقابل ہے آئینہ:کالموں کا مجموعہ)
ناصر علی سید ادب و فن کی کئی جہات میں اپنے اظہار کا جادو جگا رہے ہیں۔پشاوراورخیبر پختون خواہ کی ثقافتی دنیا ہو یاٹیلی ویژن کا جہان،صحافت کی نگری ہو یا ادب کا وسیع میدان،وہ ہر جہت میں اپنے فن کے اظہار کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتے ہیں۔کالم نگاری بنیادی طور پر صحافتی نوعیت کا کام ہے۔لیکن انہوں نے اپنی کالم نگاری میں اپنی دلچسپی اور ترجیحات کے سارے شعبوں کو یکجا کر دیا ہے۔
ناصر علی سید کے کالموں میں پشاورکی دھرتی سے جڑے ہوئے لوگوں اور قصوں کو خاص اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ملک کے بعض اہم حالات و واقعات کو بھی موضوع بناتے ہیں اور گلوبل ولیج کا حصہ ہوتے ہوئے دنیا بھر کے حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ادب تو ویسے بھی ان کے کالموں کے مزاج میں شامل ہے،ادبی کتابوں سے لے کر ادیبوں تک کا حال،احوال لکھتے رہتے ہیں۔اردو زبان کے مسائل کا ذکر بھی دردمندی سے کرتے ہیں۔ان کے کالموں میں پشتو اور ہندکو زبانوں کی کہاوتوں اور محاوروں کا بے تکلفانہ استعمال اردوکالم نگاری کے ”پشاور اسکول“کے استحکام کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ ان کے ہاں پشتو اور ہندکوالفاظ اپنے ترجمہ سمیت اردو میں رچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ناصرعلی سید اپنے کالموں میںسائینس اور فلسفہ کے حوالے سے بھی تھوڑی بہت باتیں ہلکے پھلکے اور آسان پیرائے میں بیان کر جاتے ہیں۔مقصد اپنے قاری کو اپنے مطالعہ میں شریک رکھنا ہوتا ہے۔فلسفہ کے نام پر یبوست زدہ باتیں لکھ کر قاری کو بوجھوں مارنا نہیں ہوتا۔
جدید تر ایجادات نے دنیا بھر کے معاشروں میں ایک زلزلہ انگیز کیفیت پیدا کر دی ہے۔بہت کچھ اتھل پتھل ہو رہا ہے۔ناصر علی سید اس ساری صورتِ حال سے نہ صرف با خبر ہیں بلکہ اسے حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کی سب سی اچھی خوبی یہ ہے کہ لکھتے وقت نہ تو خود کو کوئی نام نہاد فلسفی،مفکراور دانشور گردانتے ہیں اور نہ ہی کوئی دانشورانہ رعونت ظاہر کرتے ہیں۔فلمی دنیا کی باتیں ہوں یا کسی اور حوالے سے بات ہو جہاں کہیں کوئی فلمی گیت یاد آتا ہے اور مناسب بیٹھتا ہے،اسے مزے مزے سے کالم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔مجھے ان کے اس انداز میں ایک بے تکلفی اور بے ساختہ پن دکھائی دیا ہے،جو مصنوعی دانشوری سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ناصر علی سید کے کالموں کا مجموعہ صحافتی، ادبی،سیاسی اور ثقافتی حلقوں کے ساتھ عوامی سطح پر بھی دلچسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔
(”ادب کے اطراف میں“۔”مقابل ہے آئنہ“ کالموں کے مجمو عہ میں شامل تاثرات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔