(مضامین،جائزے،خاکے)
منشا یاد اردو کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ان کے نو افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔پنجابی کتب اور مرتب کردہ کتب کی تعداد الگ سے ہے۔ایک ادیب کی حیثیت سے انہوں نے لکھنے کے ساتھ پڑھنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ان کا مطالعہ ادب اور ادیب ہردو سطح پر جاری رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بعض ادیبوں کے خاکے لکھے ،بعض کتابوں کے ادبی جائزے لکھے،مضامین لکھے۔یوں مضامین کا مجموعہ ”منشائیے“تیار ہو گیا۔
میں ادب میں تنقید کا قائل ہوں،نظری تنقیدکی اہمیت کامعترف ہوں،تاہم مجھے وہ تنقید اورنظری مباحث کھلتے ہیں جن میں پوری بحث کے آخر تک قاری کو یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیا سمجھایا جا رہا ہے۔ایسی یبوست زدہ تنقید کے مقابلہ میںادب کے قاری کی سیدھی سی رائے،اور کھلا تاثر زیادہ معتبر ہو جاتا ہے۔منشا یاد نے ادبی شخصیات کا جائزہ لیا ہے یا ادبی کتابوں کا، ہر دو قسم کے جائزوں میں انہوں نے ادب اور قاری کے رشتے کو صرف عام فہم نہیں بنایا بلکہ دل میں اتر جانے والا بھی بنا دیا ہے۔ ممتاز مفتی،عصمت چغتائی،ضمیر جعفری،احمد ندیم قاسمی،قدرت اللہ شہاب،لطیف کاشمیری،اعجاز راہی،ضیا جالندھری،ملک مقبول احمد،اکبر حمیدی ،رشید امجد،احمد فراز،اور متعدد دیگر معروف اور غیر معروف ادیبوں سے لے کر پروین عاطف اور فریدہ حفیظ تک منشا یاد نے کسی کی کتاب کا جائزہ لیا ہے تو ساتھ ہی اس کی شخصیت کو بھی نمایاں کر دیا ہے اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے تو اس کے ادبی قدو قامت کو بھی پیش کر دیا ہے۔
”منشائیے“منشا یادکے ذاتی تاثرات پر مبنی مضامین ہیں۔اس لحاظ سے کتاب کا نام بہت با معنی اور دلچسپ ہوجاتا ہے۔کتاب کے تمام مضامین میں منشا یاد کا رویہ محبت آمیز رہا ہے،انہوں نے زیادہ تر وہ ادب پارے منتخب کیے ہیں جن سے وہ اپنی ادبی محبت کے اظہار میں کوئی الجھن محسوس نہ کر سکیں۔ اپنے ایماندارانہ اظہار کی وجہ سے منشا یاد کی تحریربہت زیادہ دلچسپ ہو گئی ہے۔ اس میں جن شخصیات سے تعارف ہوتا ہے وہ آپ کی جانی پہچانی شخصیات ہوں تب بھی ان کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں جو ایک طرح سے انکشاف کا درجہ رکھتے ہیں۔اسی طرح جن کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے اس سے متعلقہ کتب کو خود پڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔
” منشائیے“روایتی تنقید کے مضامین کا مجموعہ نہیں ہے لیکن اپنے اندازِ بیان کی وجہ سے ہماری روایتی تنقیدکی رہنمائی کرتا ہے۔ان مضامین سے ہمارے ناقدین کرام سیکھنا چاہیں تو یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کسی ادب پارے کے مطالعہ کا طریق کار کیا ہونا چاہیے۔قاری کو ادب سے قریب کرنا مستحسن ہے یا ایسا علم بگھارنا جو صرف یبوست زدہ اور جارحانہ تنقید کو سامنے لائے۔تنقید کے نام پر قاری کو ادب سے دور کرنے والے نقادوں کو ”منشائیے“ کا مطالعہ ضرور کرناچاہیے۔مجھے امید ہے کہ ایسے نقاد پھر اپنے لیے بہتر راہیں تراش سکیں گے۔ذاتی طور پر مجھے ”منشائیے“ نے بہت ادبی مزہ دیا ہے۔میں ابھی تک منشا یاد کے مضامین کی خوشبومیں گھرا ہوا ہوں۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ جنوری تا جون ۲۰۱۴ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔