(ماہیے)
اسماعیل گوہر پشتو زبان و ادب کے استاد ہیں۔اردو سے نہ صرف آشنا ہیں بلکہ اس آشنائی کو انہوں نے روشنائی سے مزین کیا ہوا ہے۔اردو ادب سے بھی اتنا ہی گہرا تعلق رکھتے ہیں جتنا پشتو زبان و ادب سے۔مانسہرہ سے نکلنے والے ادبی رسالہ شعروسخن کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ادبی کتابوں اورادبی مسائل پران کے تبصرے اور مضامین چھپتے رہتے ہیں۔ماہیوں کے مباحث پر میری بعض کتابوں پر بھی انہوں نے تبصرہ کیا تھا۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ان کے تبصرے کے اندر کہیں ماہیے سے گہری وابستگی کا احساس کارفرما ہے۔ اسماعیل گوہر نہ صرف اردو ماہیا کے مباحث کو غور سے پڑھ رہے تھے اور ان پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے بلکہ وہ اس کے تخلیقی امکانات کا جائزہ بھی لے رہے تھے۔یہ حقیقت مجھ پر اب ظاہر ہوئی ہے جب ان کے ماہیوں کے مجموعہ”جب چڑیا شور کرے“کا مسودہ میرے سامنے موجودہے۔اسماعیل گوہر نے ماہیے کی بحث میں ہلکا پھلکا سا حصہ لیا لیکن ماہیا نگاری کے ذریعے بھرپور تخلیقی اظہارکر دیا۔ان کے ماہیوں میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو ہمارے ماہیانگاروں میں عمومی طور پر پائی جاتی ہیں۔لیکن عمومی خوبیوں کے ساتھ ان کے ماہیوں میں افغانی اور پختون کلچر بہت نمایاں ہے۔اسے ایک لحاظ سے اردو ماہیا میں ایک اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
استر نہ لبادے ہیں فولاد کو موڑ دیا خوشحال خٹک پڑھ لو
ہم افغانی بھی مجھ افغانی کو ہم پشتونوں کا
کیا سیدھے سادھے ہیں تیری ضد نے چھوڑ دیا فکری مکتب پڑھ لو
”جب چڑیا شور کرے“میں شامل ماہیے بحیثیت ماہیا نگار اسماعیل گوہرکی شناخت کو قائم کرتے ہوئے، اردو ماہیا کو پشتون اور افغان رنگ سے آشنا کر رہے ہیں۔اس حوالے سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ گولیوں کی تڑ تڑ اور بموں کے دھماکوں کے شور میں گھرے ہوئے خطے کا ماہیا نگارچڑیا کی آواز کیسے سن پایا۔میں اسے پورے پختون خطے کے معصوم اور پر امن عوام کی آواز سمجھ رہا ہوں جو تدریجاً بلند آہنگ ہو کر شورجیسی لگ رہی ہے اور جو اپنے پورے پختون خطے میں امن و سکون اور ترقی کو دیکھنے کو خواہاں ہیں۔ اس تناظر میں اسماعیل گوہر کے ماہیوں کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔
میں اس مجموعے کی اشاعت کا تہہ دل سے اور امن کی دعا کے ساتھ خیر مقدم کرتا ہوں!
(کتاب میں شامل تاثرات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔