مقیم اثر بیالوی مالے گاؤں میں مقیم کہنہ مشق شاعر ہیں۔شعر گوئی میں مشّاق ہی نہیں پُر گو بھی ہیں۔”لا تقنطو“،”نغمۂسنگ“اور”بدن نژاد قبا“کے بعد ان کا چوتھا شعری مجموعہ”سرحدِ لفظ نہیں“ شائع ہوا ہے۔ اس مجموعہ میں ۲۸۰غزلیں اور ۱۷نظمیں شامل ہیں۔ تیسرے مجموعے کے بارہ برسوں کے بعد ان کایہ چوتھا مجموعہ سامنے آیا ہے۔پہلے مجموعوں کو ملا کر دیکھیں یا صرف اسی مجموعے کو پیشِ نظر رکھیں یہ بات واضح ہے کہ مقیم اثر بیاولی کو شعر گوئی پر قدرت حاصل ہے۔ان کی مشاقی کے ساتھ ان کی پُرگوئی بھی ان مجموعوں سے عیاں ہے۔میرا خیال تھا کہ مقیم اثر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہوں گے،اگرچہ ایسا ہی ہے لیکن نظم پر ان کی گرفت بھی اتنی ہی مضبوط ہے جتنی کہ غزل پر۔
مقیم اثر کے کلام میں ایک خاص روانی ملتی ہے جوقاری کو اپنے ساتھ بہائے لیے چلتی ہے۔ان کی غزلوں سے چند اشعار کسی انتخاب کے بغیر پیش ہیں۔ان سے ان کی غزل گوئی کے عمومی مزاج کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
کہا سنا جو سبھی نے،کہا سنا ہی نہیں
ہمارا رنگ کسی اور کو ملا ہی نہیں
بدن کے پیچ و خم میں ڈھے گئے ہم
گماں تھا راہ کچھ ہموار سی ہے
میں درِ اسرار پر دیتا ہوں دستک اس لیے
روشنی کا راستہ دنیا تجھے مل جائے گا
ریت تھپیڑوں سے گھائل ہے خون میں ڈوبی پیاس مِری
آخر کب دریا سے جڑے گی جلتی بلتی پیاس مری
قطرہ جب تک نہ بنے خود دریا
دریا قطرے میں سماتا ہی نہیں
ایک نظم”لاہوتی جست“کی چند ابتدائی لائنوں سے ان کی نظم کے تیور دیکھے جا سکتے ہیں۔
”روایت کوش جلووں کے اُفق آلود پتھر کی
لکیروں کو خدا کہتی سیہ اندھی عقیدت کی ترائی سے اُدھر اک دن
پروں میں باندھ کر سارے زمانوں کی گھنی مٹی
مہکتی گونجتی،آتش فشاں آزاد گامی سے
اچھوتا مشورہ کرکے
فلک آثارشاہینی اڑانوں کو
دہکتی آنکھ کی ان پتلیوں کا ہم زباں کر کے
مِری پروازِ لاہوتی میں شامل ہو“
اپنے دوسرے مجموعے سے ہی مقیم اثر اپنے بعض مخالفین کے بارے میں برہمی کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔میں ادبی دنیا کی مقامی سیاستوں کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہوں۔ہماری تمام تر بے نیازی کے باوجود ”غوغائے رقیباں ‘ ‘ کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے ۔تاہم اچھے تخلیق کار کا تخلیقی کام بجائے خود اپنا اجر آپ ہوتا ہے۔مقیم اثر اس حقیقت کو مد نظر رکھیں اور مخالفین کی باتوں سے غصہ میں آنے کی بجائے اس الاؤکو اپنے تخلیقی عمل حصہ بناتے جائیں،یہی ان کی طرف سے ان کے مخالفین کے لیے بہتر جواب ہو گا۔مقیم اثر جیسے پُر گو شاعر کی شاعری کسی مقام پر رُکنے والی نہیں،سو ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے مزید مجموعے بھی جلد ادبی دنیا کے سامنے پیش کر یں گے۔میں ان کی شعری روانی کے قائم رہنے کی دلی آرزو کے ساتھ ان کے مجموعہ”سرحدِ لفظ نہیں“کا استقبال کرتا ہوں۔
(جدید ادب جرمنی ۔ شمارہ ۱۶،جنوری ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔