منور عثمانی ۱۹۹۵ءسے انشائیہ نگاری کر رہے ہیں اور اسی عشرے کے آخری حصہ میں انہوں نے انشائیہ فہمی کی مختلف جہات پربھی کام کرنا شروع کر دیاتھا۔”سفر،راستہ بناتا ہے“کے نام سے ان کی مرتب کردہ کتاب (مطبوعہ سال ۲۰۰۰ء)میں سیر و سفر کے موضوع پر انشائیوں کا ایک انتخاب دیا گیا ہے جو اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔”رشید احمد صدیقی کے انشائی تیور“(مطبوعہ سال ۲۰۰۲ء)میں انہوں نے ایسے اقتباسات کو یکجا کیا ہے جن میں انشائیہ رنگ ملتا ہے ۔رشید احمد صدیقی مکمل انشائیہ تو نہ لکھ سکے لیکن انہوں مہذب اور شائستہ مزاح کے ایک نئے ذائقے سے اردو ادب کو آشنا کیا۔منور عثمانی نے رشید احمد کے انشائی تیور یکجا کرتے ہوئے اپنی انشائیہ فہمی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔انشائیہ کی تفہیم کے ان مرحلوں سے گزرتے ہوئے اب ان کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ”فرنٹ سیٹ“ منظر عام پر آیا ہے۔ ۱۹۹۵ءسے اب تک انہوں نے جو انشائیے لکھے وہ انیس انشائیے اس مجموعہ میں شامل ہیں۔
فرنٹ سیٹ،قائل کرنا،ریڈیو کے حق میں آخری آواز،پیدل چلنا،طنز،ممتحن کی ڈائری،صبح کا تارا،نئے گھر کی خوشگوار بات،لمحۂموجود کا پھیلاؤمتفرق پرچیوں پر لکھا میں نے،ایک قابلِ واپسی خط،ایک جاگتی کہانی،رات کی جناب میں،ایک غیر حتمی انٹرویو،تعارف،کم زور لمحہ،باتیں کیا کرو!،دھند میں سفر شروع ہوا،نامۂاعمال کی دلآویزی۔۔۔یہ انیس انشائیے اس مجموعہ کی زینت ہیں۔”پس نوشت“۔۔”منظر،سفر میں ہے“ کے تحت انہوں نے جو گفتگو کی ہے اس پر بھی انشائی رنگ غالب ہے اور سچی بات ہے میں تو اسے بھی انشائیہ قرار دوںگا۔یوں اس مجموعہ میں انیس نہیں،بیس انشائیے شامل ہیں۔
فرنٹ سیٹ کے تمام انشائیے جملہ انشائی اوصاف سے مملو ہیں۔کہیں مزاح کا عنصر غالب ہوا ہے تو یہ غلبہ عارضی ثابت ہوا ہے،انشائیہ نگار جلد اپنی ڈگر پر آجاتا ہے۔ہر چند بعض عناوین میں سفرکا لفظ آیا ہے،سفر بجائے خود تحرک کی علامت ہے لیکن منور عثمانی کے ہاں سفر سے زیادہ سیر و سیاحت کی کیفیت نمایاں ہے۔وہ اپنے موضوع کے ساتھ جیسے سیر کرتے ہوئے جا رہے ہیں۔سیر کے دوران کہیں پہنچنے کی یا جلد واپس لوٹنے کی جلدی کسی کو نہیں ہے۔نہ انشائیے کے موضوع کو اور نہ انشائیہ نگار کو۔چنانچہ ہر سیر اتنی عمدہ ہوتی ہے کہ قاری سیر مکمل ہونے پر تھکن کا شکار ہونے کی بجائے تازہ دم ہوجاتا ہے ۔ یوں ایک کے بعد دوسرا انشائیہ پڑھتا چلا جاتا ہے۔
منور عثمانی اردو کے معروف انشائیہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔انشائیہ کی بنیاد کے حوالے سے ان کامرتب کردہ و مدون کردہ کام ہویا تخلیق کار کی حیثیت سے انشائیے تخلیق کرنے کا کام ہو،سب قابلِ قدرہیں۔میں ان کے انشائیوں کے پہلے مجموعہ”فرنٹ سیٹ“ کا کھلے دل کے ساتھ استقبال کرتا ہوں!
(مطبوعہ روزنامہ ”ہمارا مقصد“دہلی ۲۸اگست ۲۰۱۰ء
جدید ادب جرمنی شمارہ ۱۶۔جنوری تا جون ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔