سب سے پہلے میں جناب جیم فے غوری صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ وہ حلقہ ارباب ذوق اٹلی کی جانب سے ”مغربی دنیا میں اردو کی صورتِ حال“کے موضوع پر سیمینار کرا رہے ہیں۔اٹلی میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا سیمینار ہے اس لیے اس کی ایک تاریخی حیثیت بنتی ہے۔مجھے انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ مدعو کیا لیکن اپنی گزشتہ برس کی علالت کے باعث مجھے ۶جولائی سے آخر جولائی تک ہسپتال میں داخل ہونا پڑ رہا ہے اور میں شدید خواہش رکھنے کے باوجود اس سیمینار میں شریک نہیں ہو رہا۔جناب جیم فے غوری نے نہ صرف میری طبی مجبوری کا خیال رکھا بلکہ میری غیر حاضری کے باوجود مجھے سیمینار میں حاضر رکھنے کے لیے متبادل رستے نکال لیے۔مجھے اس موضوع پرمضمون لکھ کر بھیجنے کا حکم صادر کر دیا۔”مغربی دنیا میں اردو کی صورتحال“میرا پسندیدہ اور فکرمندی کا موضوع رہا ہے،میں گزشتہ دس برس سے اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔سو اس مضمون میں پہلے لکھے جا چکے کئی نکات کی تکرار ہو سکتی ہے تاہم میں ساری باتیں بہت اختصار کے ساتھ پیش کروں گا۔
مغربی دنیا میں یورپ کے ساتھ امریکہ،کینیڈااور آس پاس کے اُن دوسرے ممالک کو بھی شمار کیا جانا چاہیے جہاں اردو بولنے والے،سمجھنے والے موجود ہیں۔ان ممالک میں اردو جاننے والوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔انڈیا کے اردو جاننے والے بھی معقول تعداد میں موجود ہیں،بلکہ جہاں بول چال اور میڈیا کی سطح پر دیکھا جائے تو ہندی والے بھی اسی زمرے میں آجاتے ہیں کیونکہ بول چال کی حد تک یہاں دونوں زبانیں جاننے والوں میں تفہیم کے لحاظ سے کوئی خاص مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ ٹی وی چینلز،ریڈیو اسٹیشنزکے ذریعے بول چال کی حد تک اردو اپنے بولنے والوں سے بہت زیادہ منسلک ہے۔ادبی تقریبات ،کانفرنسز،سیمینارز،مشاعروں کے ذریعے بھی اردو جاننے والوں کے لیے مجلسی رونق مہیا ہو جاتی ہے۔یہ ادبی و ثقافتی تقریبات اردو کی بقا کے لیے کچھ نہ کچھ معاون ضرور ثابت ہوتی ہیں۔
کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو کے فروغ کے بڑے امکانات موجود ہیں۔اس سلسلہ میں بعض نشریاتی اداروں کی طرف سے بھی اور بعض انفرادی کاوشوں سے بھی متعدد ویب سائٹس کے ذریعے خبر کی برق رفتار ترسیل کو ممکن بنا دیا گیا ہے جو یقیناً لائقِ تحسین ہے۔ویب سائٹس کے ذریعے خبر کی ترسیل کے ساتھ کالم نگاری کا رجحان بھی فروغ پا رہا ہے۔اصلاً دیکھا جائے تو ہمارے عوام میں سیاسی شعور اتنا زیادہ ہے کہ وہ حکومت یا میڈیا کی کسی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کرتے۔عوامی سطح پر تھڑوں پر بیٹھ کر سیاسی گپ شپ کرنے والے شاید زیادہ بے لاگ ہوتے ہیں۔ویب سائٹس کے کالم نگاروں میں بھی یہی بے لاگ رویہ نمایاں ہوا ہے۔اگرچہ بعض لکھنے والوں نے ذمہ دارانہ لب و لہجہ کے ساتھ بھی بات کی ہے اور قلم کے اخلاقی تقاضوں کو پورا کیا ہے تاہم زیادہ تر کالم لکھنے والے بے باکی کے ساتھ بے لاگ قسم کے کالم لکھ رہے ہیں۔اس سے کالم نگاروں کا کتھارسس بہر حال ہوجاتا ہے۔انٹرنیٹ پر بعض ای لائبریریز بھی قائم کی جا چکی ہیں۔ہر لائبریری کے منتظمین نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق وہاں کتابیں یکجا کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔اردو لغت کی فراہمی سے لے کر ان پیج ورشن کو یونی کوڈ میں تبدیل کرنے تک کی سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں۔اردو کی ادبی ویب سائٹس بھی مسلسل قائم کی جا رہی ہیں۔ان میں اچھی اور بری،معیاری اور غیر معیاری ہر طرح کی ویب سائٹس سامنے آرہی ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا سے خاص طور پر مفت اخبارات کی اشاعت کا ایک سلسلہ جاری ہے جو حیران کن بھی ہے اور قابلِ تعریف بھی۔انگلینڈ سے بھی اخبارات کی اشاعت ہو رہی ہے۔جہاں جسے توفیق ملتی ہے ادبی رسالہ بھی نکال لیتا ہے۔ادبی رسائل کے سلسلہ میں چار پانچ ایسے رسائل کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔جو نسبتاً ایک مقررہ میعاد کے اندر چھپ رہے ہیں اور اپنے اپنے مدیران کی ادب فہمی کا پیمانہ ہیں۔
یہاں تک اردو کا جو منظر نامہ سامنے آتا ہے وہ کسی نہ کسی حد تک خوش کن ہے۔لیکن اس ساری رونق کے پہلو بہ پہلو یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اردو پڑھنے،لکھنے کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔برطانیہ میں مختلف اسکیموں کے تحت اردو پڑھانے کا انتظام ہے لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد گزشتہ ۳۶برسوں سے برطانیہ میں آباد ہونے والے پاکستانیوں ،یا اردو والے ہندوستانیوںکی اولاد میں سے ہمیں روشن مثالیں نہیں مل رہیں۔ایسی مثالیں جنہیں پیش کرکے کہا جا سکے کہ یہ بچے انگلینڈ میں پیدا ہوئے،یہیں پلے بڑھے،یہیں تعلیم حاصل کی اور یہیں سے اردو سیکھ کر اب یہ برطانیہ میں اردو کے کسی نشریاتی ادارہ،کسی تعلیمی ادارہ یا کسی اخبار سے منسلک ہو کر اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔یا جو اسی ذریعۂتعلیم سے گزرتے ہوئے اردو کے اچھے شاعر اور ادیب بن گئے۔اگر برطانیہ میں اردو کے لیے اتنی سہولیات کے ہونے کے باوجود یہاں سے پڑھ لکھ کر۳۶برسوں میں ایک بھی اردو کا صحافی،ٹیچر یا ادیب پیدا نہیں ہو سکا تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان ملکوں میں اردو کا مستقبل پہلے سے موجود پرانے شاعروں،ادیبوں تک محدود ہے،یا پھر جب تک پاکستان اور انڈیا سے نئے تارکین وطن آتے رہیں گے تو ان کے ذریعے ہی اردو کا نام لیا جاتا رہے گا۔ اسے اردو کا فروغ سمجھا جاتا ہے تو پھر ایسا فروغ بہر حال یہاں پر ہے۔ابھی حال ہی میں۱۶مئی کو جرمنی کے شہربون میں ایک مشاعرہ ہوا تھا۔اس میں اڑھائی سو کے لگ بھگ حاضرین تھے۔اس تقریب میں بون یونیورسٹی کے ڈاکٹر ویسلر نے اعلان کیا تھا کہ ہماری یونیورسٹی میں یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر اردو پڑھنے کے خواہشمندآٹھ طالب علم مل جائیں تووہاں اردو پڑھانے کا انتظام موجود ہے۔اس اعلان کے بعد کسی میں سنجیدہ دلچسپی ہوتی تو اب تک آٹھ کی بجائے سولہ افراد داخلہ لے چکے ہوتے۔لیکن اردوسے ہماری خالی خولی محبت ظاہر ہو گئی کہ دو ماہ کے لگ بھگ عرصہ گزر گیا کسی نے یہ معلوم کرنے کی تکلیف بھی نہیں کی کہ یہاں اردو سیکھنے کے لیے داخلہ لینے کا کیا طریق کار ہے۔برطانیہ ہو یا جرمنی یا باقی کی مغربی دنیا سب میں عاشقان اردو کا یہی حال ہے ۔ سب زبانی کلامی دعوے ہیں،عملی صورت صفر ہے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی احباب کی اولاد تو اردو سیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی،لیکن خود مغربی دنیا کی نئی نسل میں سے اتنے طالب علم نکل آتے ہیں جو اردو سیکھنے میں تھوڑی بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ایسے یورپی طلبہ کی ایک معقول تعداد دیکھنے میں آجاتی ہے۔
شعروادب کی صورتِ حال پر میں پہلے جو لکھ چکا ہوں،اب بھی وہی صورتِ حال ہے۔لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد شاعری میں روایتی انداز کی طبع آزمائی کرتی رہتی ہے۔اس میں کلاسیکل انداز سے لے کر ترقی پسندی کے اثرات تک سب کچھ وہی ہوتا ہے جو اساتذہ اور ترقی پسند شعراءکے ہاں پہلے سے موجود ہے۔بہر حال اس میدان میں یقیناً چند اچھے شعرا بھی ہیں جنہیں ادب کے مرکزی دھارے میں شمار کیا جاتا ہے۔بے وزن شاعری بے دھڑک سنانے والوں اور چھپوانے والوں کو معصوم شمار کیا جانا چاہیے لیکن جو شعراءشاعری کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے بے وزن شعراءکے ساتھی اور ہم رکاب بن رہے ہیں وہ جانتے بوجھتے ہوئے شاعری کو ”بے توقیر “کر رہے ہیں۔بے وزن شعری مجموعے چھپوانے والے معصوم شاعروں کے ساتھ سادہ کاغذ پر اصلاح لے کرعظیم شاعربن جانے والے خواتین و حضرات کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اس بیماری کی ذمہ داری بہر حال پاکستان اور انڈیا کے ان استاد شاعروں پر عائد ہوتی ہے جو ایک معقول رقم لے کر نہ صرف پوری کتاب لکھ دیتے ہیں بلکہ کتاب چھپوا کر اس کی رونمائی کی تقریب تک کا پورا پیکج فراہم کرتے ہیں۔یہ کاروبار افسوسناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ حقیقت جانتے ہوئے بھی جعلی شاعروں کی پذیرائی کر رہے ہیں۔ایسے شعرا کا ذکر کرتے ہوئے جب” اردو کا عالمی ادب“ کے الفاظ بولے جاتے ہیں تومجھے لاہور کے علاقہ” شاہ عالمی “کا ادب ان سے کہیں زیادہ بہتر اور بڑا دکھائی دیتا ہے۔مغربی دنیا میں نثر میں لکھنے والے نسبتاً کم تعداد میں ہیں،تاہم ان میں افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے نثرنگاری کا بھرم رکھا ہوا ہے۔ثقافتی تصادم کی بعض کہانیاں اردو کی عمدہ کہانیوں میں شمار کی جا سکتی ہیں۔تحقیق و تنقید کے سلسلہ میں تھوڑا بہت اہم کام ہوا ہے لیکن عمومی طور پر اس شعبہ میں کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔بعض نقاد فارسی سے کھلم کھلا سرقہ کر چکے ہیں تو بعض یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھتے ہوئے وہاں کے درسی نوعیت کے نوٹس اور لیکچرز کو ہی اردو میں بیان کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اردو ادب میں فلسفہ کے حوالے سے کوئی تیر مارلیا ہے۔جبکہ اردو میں پہلے سے اس حوالے سے نسبتاً بہتر کام ہو چکا ہے۔جس میں مغربی فلسفیوں کے افکار کو محض من و عن پیش نہیں کیا گیا بلکہ ان سے اختلاف بھی کیا گیا ہے یا ان کے پیش کردہ نکات سے نئے نکات ابھارے گئے ہیں جو مشرق کے تخلیقی و فکری رجحانات کو نمایاں کرتے ہیں۔ افسانے کے باب میں بعض افسانے اعلیٰ معیار کے مل جاتے ہیں لیکن تحقیق و تنقید کی اکا دکا استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر عمومی صورتِ حال مایوس کن ہے۔ادب کے اس عمومی منظر نامہ میں انٹرنیٹ کی بدولت اب ای میل شاعراور دانشوروں کی ایک نئی کھیپ پیدا ہو رہی ہے۔جعلی اکیڈمیاں بن رہی ہیںجو صرف ای میلز کے بل پر چل رہی ہیں۔ایک ایسے ہی جعلی شاعر اورجعلی اکیڈمی کے چئیرمین و چیف ایگزیکٹیوصاحب نے خود کو ایک ادبی رسالہ کا چیف ایڈیٹر بیان کیا۔پاکستان گئے تو وہاں اپنے اعزاز میں بطور چیف ایڈیٹرتقریبات منعقد کرائیں۔۔دو سال گزر چکے ہیں لیکن چیف ایڈیٹر کے رسالے کا ایک شمارہ بھی ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ای میلز کے ذریعے ایسے جعلساز ،چیف ایڈیٹر،چیف ایگزیکٹو،چئیرمین اور مزید پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہلا کر صرف جعلسازی کو فروغ دے رہے ہیں اور بقول رشید امجد یوں مغربی دنیا میں ہر انچ پر عظمت کا ایک مینار کھڑا ہوا ہے۔
ان منفی رویوں کے باوجود جینوئن اردو ادیبوں کے اچھے ادبی کام کے بل پر مغربی دنیا میں اردو ادب کا بھرم قائم ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ ایسا ادب اردو کے مرکزی دھارے میں اپنی شناخت قائم کرے گا۔ لکھی اور پڑھی جانے والی زبان کے طور پر تو اردو کا مستقبل بظاہرکچھ زیادہ اچھا نہیں ہے لیکن انڈوپاک کے چینلز کی کثرت کے باعث یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اردو، بولی جانے والی زبان کے طور پر مغربی دنیا میں بہر حال اپنے حلقۂاثر میں موجود بھی رہے گی اور اس کے پھلنے پھولنے کی امید بھی ہے۔عین ممکن ہے اپنی سپوکن حیثیت کو مستحکم کرنے کے بعد اسے لکھے اور پڑھے جانے والی زبان کے طور پر بھی نئے امکانات میسر آجائیں۔
اچھے دنوں کی امید کرنا اچھی بات ہے اور اسی اچھی امید کے ساتھ میں اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔
(حلقۂاربابِ ذوق اٹلی کے تین روزہ سیمینار میں دوسرے روز۲۲جولائی ۲۰۱۰ءکو پڑھا گیا)
(مطبوعہ ماہنامہ” اخبارِ اردو“اسلام آباد،شمارہ :ستمبر ۲۰۱۰ء)