(غزلیں)
شاداب احسانی آج کے سینئر شعراءمیں شمار ہوتے ہیں۔غزل سے ان کی خاص وابستگی ہے۔آج کی غزل میں ان کا حصہ ان کے مجموعۂکلام”پسِ گرداب“ کی صورت میں ادبی دنیا کے سامنے ہے۔یہ مجموعہ ۱۹۸۷ءمیں شائع ہوا تھا۔اب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔۸۹غزلوں پر مشتمل اس مجموعہ کا دیباچہ ڈاکٹر وزیر آغا کا تحریر کردہ ہے۔تبرکاً صاحبزادہ نصیرالدین نصیر سے پیش لفظ بھی لکھوا لیا گیا ہے۔ پیش لفظ اور دیباچہ دونوں میں شاداب احسانی کی شاعری کے حوالے سے اہم باتیں کی گئی ہیں اور ان کی اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے۔شاداب احسانی کے شعری مجموعہ کے چند اشعار سے ان کی غزل کے عمومی انداز کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ہم کو خود سے ملے زمانہ ہوا گھر سے بے گھر ہوئے زمانہ ہوا
مانا کہ وصل و ہجر ازل کی اکائی ہیں لیکن بدن سے جاں کا تعلق کچھ اور ہے
خزاں جیسی بہار آئی ہے اب کے تماشا بھی تماشائی ہے اب کے
آسماں بھی زمین جیسا ہے یہ گماں بھی یقین جیسا ہے
دریا میں بار بار اترنا تو ٹھیک ہے لیکن یہ لہر لہر بدن ہو رہا ہے کیوں
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۸،جنوری تا جون ۲۰۱۰ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔