(ناول)
محترمہ آر کے نیازی گورنمنٹ کالج برائے خواتین میانوالی میں اردو پڑھاتی ہیں۔تاہم اردو سے ان کی وابستگی محض پروفیشنل سطح تک نہیں ہے۔انہوں نے اردو کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔”کسک“ان کے تخلیقی اظہار کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔
عنیزہ کا کردار پختون علاقہ کی بے شمار مجبور لڑکیوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔اس کی کہانی دراصل کئی ایسی لڑکیوں کی کہانی ہے جو اپنے ماحول کی گھٹن میں سانس لینے پر مجبور ہیں اور جب گھٹن بہت بڑھ جاتی ہے تو ان کا دَم گھٹ جاتا ہے۔عنیزہ ایک طرف اپنے قبیلے کی شان کا بھرم رکھتی ہے،دوسری طرف اپنی محبت کو اپنے دل میں زندہ رکھتی ہے اور تیسری طرف اپنے پیار کرنے والے شوہر اورگھرکی عزت کو مجروح نہیں ہونے دیتی۔لیکن ان سارے تضادات سے لڑتے لڑتے وہ اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔حقیقتاً وہ کسی ریاکاری کا ارتکاب نہیں کرتی۔اپنے قبیلے،خاندان اور ماحول کے جبر کواپنے دنیاوی احترام کے ساتھ قبول کرتی ہے،لیکن اپنے اندر کی کشمکش کے باعث خود ہی اس احساس سے دوچار ہو جاتی ہے کہ جیسے اس نے ریاکاری کی ہے۔اور پھر اس الزام کے جواب میں خود کلامی کی صورت میں عنیزہ کے یہ دلائل اپنی جگہ ایک تلخ سماجی حقیقت کے سامنے آئنہ بن جاتے ہیں۔
” میری ریاکاری کے اسباب معلوم ہیں تمہیں ؟؟؟؟میں بتاتی ہوں ۔۔۔۔کہیں مفتیوں کے فتوے،کہیں خانوں کی پگیں ،کہیں ملکوں کی شان،کہیں سیدوں کی سیادت ۔۔۔۔۔کہیں جبر،کہیں تشدد،کہیں موت کا خوف اور کہیں رشتوں کی کھلے عام بلیک میلنگ ،ساری عمر کے لئے ناطہ توڑ لینے کی دھمکیاں ۔۔۔۔میری ریاکاری تو تمہیں نظرآرہی ہے۔میری دیوانگی کا تو تم ہنس ہنس کا مذاق اڑا رہے ہو۔لیکن اس دیوانگی کے اسباب پر کبھی غور کیا ہے؟اس کے سدباب کے لئے کچھ سوچا؟کچھ کیا؟“
اس ناول میں آر کے نیازی صاحبہ نے دو مردوں میں بٹی ہوئی محبت کے کچے جذبوں کو پختہ زبان میں بیان کیا ہے۔جذبات کے کچے پن ،اور الفاظ کی پختگی نے اس ناول کو ایک دلچسپ انداز عطا کر دیا ہے۔ سماجی جبر کے سامنے عورت کی مظلومیت کی المناک داستان ہونے کے باعث اسے خانہ داری کے امور میں بہت زیادہ مصروف گھریلو خواتین اورکالج کے طلبہ تودلچسپی کے ساتھ پڑھیں گے ہی،تاہم اس ناول کو سنجیدہ اور پختہ عمر کے لوگ بھی یکساں دلچسپی کے ساتھ پڑھیں گے۔محبت کی داستان اتنی پرانی ہے جتنی آدم اور حوا کی داستان ،اوریہ قصہ اتنا ہی تازہ ہے جتنا آج کی کسی بھی سچی محبت کا کوئی قصہ تازہ ہو سکتا ہے۔در اصل ہر داستان میں اپنی مقامیت کے باعث اور اپنی اپنی نفسیات کے باعث ایک انفرادیت پیدا ہو جاتی ہے جو اس اجتماعی روداد کے اجتماعی کردار کے باوجود اس میں ایک انفرادی اور نفسی واردات پیدا کر دیتی ہے۔ آر کے نیازی نے اپنے معاشرے کے گھٹے ہوئے ماحول میں محبت کی ایسی ہی نئی داستان اس ناول میں پیش کی ہے۔ناول کے مرکزی کردار عنیزہ کی داستان مکمل ہونے پر قاری اس کے لیے گہری ہمدردی اور محبت کے جذبات محسوس کرنے لگتا ہے۔
(کتاب میں پیش لفظ کے طور پر درج تاثرات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔