جگدیش پرکاش اردو کے ایک اچھے شاعر اور اردو ادب کے سنجیدہ قاری ہیں۔ایک عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں اور ادبی منظر نامہ کو بھی پوری توجہ اور غور کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔”دھوپ کی خوشبو“،”نریندر کے لیے“ اور”آسمان در آسمان“ ان کے تین شعری مجموعے پہلے چھپ چکے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب”شگاف“ ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔اس کتاب کو بیک وقت اردو اور ہندی رسم الخط میں شائع کیا گیا ہے۔دائیں طرف سے ۱۸۴صفحات پر اردو رسم الخط میں شاعری درج ہے جبکہ بائیں جانب سے وہ سب کچھ اتنے ہی صفحات پر ہندی رسم الخط میں شامل ہے۔ہندوستان میں اب اس انداز میںبھی کتابیں چھپنے لگی ہیں۔میرے نزدیک ہندوستانی سماج کے تناظر میںیہ ایک اچھا سلسلہ ہے۔اس سے اردو ادب کو ان ہندی والوں تک آسانی سے رسائی ہو سکے گی جو اردو کو سمجھ تو سکتے ہیں لیکن پڑھ نہیں سکتے۔جگدیش پرکاش نے ”اپنی بات“میں آج کے انسان کے ایک المیہ کو یوں بیان کیا ہے۔
”مجھے آج کے انسان کے افکار،اس کی زہنیت،اس کی سوچ اور فکر میں بڑے بڑے شگاف نظر آتے ہیں،جن سے محبت،خلوص،رواداری کی ساری خوشبو خارج ہو گئی ہے۔اسی لیے اس مجموعے کے لیے ”شگاف“کا عنوان میں نے موزوں سمجھا“
ان کی نظموں اور غزلوں میں اس المیہ کو مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔چند اشعار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ترش رشتوں کو نبھانا بڑا مشکل ہے میاں
تاش کے گھر کو سجانا بڑا مشکل ہے میاں
دراڑ دیکھ رہا ہوں پرانے رشتوں میں
یہ کیسا دور ہے جس سے گزر رہا ہوں میں
بہ اہتمام جنہیں ہم بلانے والے تھے
یہ کیا پتہ تھا وہی گھر جلانے والے تھے
تاہم جگدیش پرکاش کی شاعری صرف اسی المیہ کے اظہار تک محدود نہیں ہے،ان کی شاعری میں زندگی کے دوسرے رویے اور شاعری کے نئے ذائقے بھی ملتے ہیں۔
بستر میں سر چھپا کے کہیں سو گئی ہے نیند
مسمار ہو گیا ہے مکاں میرے خواب کا
آنکھیں جب انتظار کے زینے اتر گئیں
لمحوں کی شاہراہ سے صدیاں گزر گئیں
کچھ کہے وہ تو میں زباں کھولوں
بند آنکھوں میں آسماں کھولوں
انٹرنیٹ کے دروازے سے جھانک گیا کل اک چہرہ
دل کہتا ہے ان آنکھوں میں اُس کو روز بلانا ہے
جگدیش پرکاش کی آزاد نظموں میں کچھ غزل کے اثرات ہیں تو کچھ نئی نظم کے۔اور دونوں کے امتزاج سے ان کی نظموں کا مزاج بنتا ہے۔اردو ادب کے ایک خاموش خدمتگارجگدیش پرکاش کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے اور ان کی سراہنا ہونی چاہیے۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: ۱۴۔جنوری تا جون۲۰۱۰ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔