(نثری نظمیں)
میری ادبی زندگی کی دو اہم شخصیات ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انورسدیدکی اگلی نسل کے حوالے سے مجھے دو انوکھے تجربے ہوئے۔انور سدید کے صاحبزادے مسعود انور سے جب ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا تو پتہ چلا وہ ادب میں ترقی پسند تخلیق کاروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔وزیر آغا کے صاحبزادے سلیم آغا کی نثری نظم میں گہری دلچسپی کوبھی میں اسی تجربہ کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اس سے دونوں بڑی شخصیات کے گھروں میں آزادیٔاظہار کا مثبت رویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب سلیم آغا قزلباش کی نثری نظموں کا تیسرا مجموعہ ہے۔اب لوگ باگ نثری نظم کے تخلیقی امکانات کی بات زیادہ کرتے ہیں۔ جب ڈاکٹر وزیر آغا شعری مواد اور شاعری کے فرق کو واضح کرکے، نثری نظم کے شعری مواد کا اعتراف کرکے اسے شاعری تسلیم نہیں کرتے تھے،میں تب بھی ان کے خیالات سے متفق تھا اور اب بھی اُسی بات کا قائل ہوں ۔ کتاب کے نام”ایک آواز“ پر مبنی ایک نثری نظم مجموعہ کے آخر میں شامل ہے۔اس میںوالدہ کی وفات پر دلی جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ۔لیکن مجھے یہ نثری نظم پڑھتے ہی وزیر آغا کی والدہ مرحومہ کی وفات پر لکھی ہوئی دونوں نظمیں شدت کے ساتھ یاد آئیں۔ان کے ساتھ ”آدھی صدی کے بعد“ کے وہ خوبصورت حصے یاد آئے جس میں ماں بیٹے کی یادوں کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔
اس مجموعہ کا پیش لفظ ناصر عباس نیر نے لکھا ہے۔اس میں سلیم آغا کی نثری نظم ”نیا شہر“کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے مابعد جدید کلچرکے حوالے سے اور ”بُت شکن“ کا ذکر کرتے ہوئے عالمی مارکیٹ اکانومی کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے،وہ سب پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ان کی باتوں کا نچوڑ اس اعتراف میں آجاتا ہے:
”کرۂارض کی واحدعالمی طاقت نے اکیسویں صدی میں کمزور ملکوں پر ڈسکورس ہی کی بنیاد پر جنگیں مسلط کی ہیں:پہلے اُن ملکوں سے متعلق ڈسکورس تشکیل دیے،اُنہیں میڈیا کے ذریعے پھیلایااور باور کرایا،اور پھر ہر کھڑی عمارت اور ثابت و سالم شے کو اکھاڑ پچھاڑ دیا۔اس ڈسکورس میں کہیں نہ کہیں ،مذہبی عُنصُر ضرور شامل رہا“(ایک آواز:ص ۱۱)
جدید ادب جرمنی کے شمارہ اول کے اداریہ کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے شمارہ دو میں وزیر آغا،ناصر عباس نیر اور میرے درمیان ایک مکالمہ ہوا تھا۔مجھے ناصر عباس نیر کے مذکورہ نتائج اخذ کرنے میں اُسی مکالمہ کی توسیع دکھائی دی ہے،اسی لیے مجھے اس سے دلی خوشی ہوئی ہے اور پہلے سے زیادہ ان کی علم و ادب سے وابستگی کا معترف ہو گیا ہوں۔
نثری نظم اور آزاد نظم کی بحث میں اپنا واضح موقف رکھنے کے باعث نثری نظم کے تئیں میرے تحفظات بہت واضح ہیں،تاہم اس صنف کے امکانات کو آزمالینے میں کوئی حرج نہیں۔نثری نظم کے جو مجموعے ان امکانات پر گفتگو کی گنجائش پیدا کریں گے،ان میں ”ایک آواز“بھی شامل رہے گا۔ کیونکہ”ایک آواز “کی نثری نظمیں اپنے شعری مواد کے لحاظ سے قابلِ توصیف ہیں۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: ۱۳۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۹ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔