کرامت علی کرامت کا پہلا شعری مجموعہ”شعاعوں کی صلیب“۱۹۷۲ءمیں شائع ہوا تھا۔اس کے چونتیس برس بعد دوسرا شعری مجموعہ”شاخِ صنوبر“منظرِ عام پر آیا ہے۔اس مجموعہ کو” لفظ لفظ جستجو“اور ”خواب خواب لمحہ“کے زیرِ عنوان دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اول الذکر کے تحت نظمیں، رباعیات ، قطعات ،ہائیکو،کہہ مکرنیاں اور آزاد غزلیں شامل کی گئی ہیں جبکہ دوسرے حصہ میں غزلوں کو شامل کیا گیا ہے ۔ غزلوں کا حصہ مجموعہ کی بجائے دیوان کہلانے کا مستحق ہے کہ اس میں ردیف’ الف ‘تا ردیف’ی‘ تک طبع آزمائی کی گئی ہے۔ابتدا میں ایک دعائیہ ”بارگاہِ الہٰی میں“اورتین نعتیں شامل ہیں۔نظموں کے حصہ میں بعض نظموں میں علامہ اقبال کا انداز صاف جھلکتا ہے ۔آزاد نظم میں ”منظوم خط۔۔“جیسی چند نظمیں اپنے اکہرے پن کے باعث کوئی اچھا تاثر نہیں قائم کرتیںتاہم مجموعی طور پرآزاد نظم میں وہ اپنی شناخت قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کتاب کے آخر میں پہلے مجموعہ’شعاعوں کی صلیب ‘ پر معاصرین کی آراءکو درج کیا گیا ہے۔ان آراءکو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کرامت علی کرامت نے اپنے پہلے مجموعہ کی چند نظمیں ”شاخِ صنوبر“میں بھی شامل رکھی ہیں۔مثلاً”تناسخ“، ”سرگزشتِ سفر“،اور” بے وزنی کا احساس“ ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم کتاب کے شروع میں ”ایک خط اپنے نادیدہ قاری کے نام“میں اس کا ذکر کر دیا جاتا تو ریکارڈ کی درستی یا وضاحت ہو جاتی۔کرامت علی کرامت کی شاعری کے بارے میں عام طورپر ان کے معاصرین نے اچھی رائے دی ہے تاہم شمس الرحمن فارقی،چودھری محمد نعیم اور ڈاکٹر لطف الرحمن کے تاثرات میں خاصے تحفظات کا اظہار ملتا ہے۔
ردیف وار غزلیں کہنے کی مہارت کی ایک جھلک کے طور پر”شاخِ صنوبر“میں سے چند اشعار پیش ہیں۔
میری بولی بولتا تھا، ہم زباں اپنا نہ تھا
مثلِ طوطا شعر پڑھتا تھا،بیاں اپنا نہ تھا
ناکام حسرتوں کا مقدر لئے پھرا
یوں میں شکستِ خواب کا منظر لئے پھرا
مختارِ کُل ہے ،لکِ بصیرت کا، اے ادیب
کیوں اپنے آپ کو تو سمجھنے لگا غریب
کیا مجھ کو دیکھو ہو جناب
میں ہوں کھلی سی اک کتاب
باغوں میں شور و غُل ہے مگر عندلیب چپ
کیا بات ہے کہ میرا شگفتہ نصیب چپ
پتہ کھڑک اُٹھا تو میں چونکا ہوں نیند سے
جھونکا شکستِ خواب کا لاتی رہی ہے رات
یوں ہے مسموم فضا کیا باعث
منظرِ کرب و بلا کیا باعث
پہنا ہے آسمان نے سورج کا جب سے تاج
لینے لگا زمیں سے پہاڑوں کا وہ خراج
کرامت علی کرامت کی غزلوں کے ان چنداشعار ہی سے ا ن کی غزل گوئی کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے!
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: ۱۳۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۹ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔