(اردوشاعری میں)
ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط نے اس کتاب میں اردو شاعری میں بیان ہونے والے اسطوری فکر و فلسفہ کا کچھ احاطہ کرنے کی کاوش ہے۔اساطیر کے انتخاب میں انہوں نے ہندو،سکھ،بدھ،مسیحی،اسلامی اور یہودی مذاہب کی روایات سے استفادہ کیا ہے۔یوں ان کی کتاب فکر و فلسفہ کی بجائے مذہبی فکراور شاعری کی سطح پر رہتی ہے۔فلسفہ کا اس میں عمل دخل بہت کم ہوجاتا ہے۔قدیم مذہبی اساطیر کی بازیافت میں یحییٰ نشیط نے بڑی محنت سے کام کیا ہے اور کئی عمدہ اور خوبصورت روایات کو نہ صرف سامنے لائے ہیں بلکہ اردو شاعری میں ان کے ذکر کی نوعیت کو بھی عمدگی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ہندو دیومالاتو ویسے بھی اپنے ایسے سرمائے کے لحاظ سے بے حد زرخیز ہے۔سکھ اور بدھ مت کی اساطیر بھی کافی دلچسپی کی حامل ہیں۔
مسیحی،یہودی اور اسلامی روایات کا اصل منبع(ابراہیمی) چونکہ ایک ہی ہے اس لیے یہاں بہت کچھ جانا پہچانا ہی ہے۔کہیں کہیں بعض تسامحات بھی راہ پا گئے ہیں۔مثلاً یحییٰ نشیط نے ایک جگہ ’کوہِ طُور ‘کو عیسائیوں کے نزدیک مقدس پہاڑ قرار دیا ہے(ص ۹)۔جبکہ اسطوری سطح پر بھی اور کتبِ مقدسہ کے حوالے سے بھی کوہِ طُور یہودی،مسیحی اور اسلامی تینوں مذاہب کے لیے مقدس پہاڑ کے طَور پر مذکور ہے۔
یحییٰ نشیط نے فلسفے کی آزادہ روی کو اختیار کرنے کی بجائے مذہبی فکرکی پناہوں میں اپنا علمی سفر طے کیا ہے،اسی لیے وہ اساطیر میں مذہب ہی کی کارفرمائی دیکھتے ہیں۔افراد کے اجتماعی حافظے سے بات ماقبل تاریخ تک لے جائی جا سکتی ہے،تاہم مذہب الارواح میں بھی مذہبی احساس تو بہر حال کارفرما رہا تھا۔مجھے سمیری دیومالا کی ایک بلا ”تیامت“ یاد آرہی ہے۔یہ بلا جب نازل ہوتی ہے تو جہاں سے گزرتی ہے وہاں تباہی مچا دیتی ہے۔اپنی ہولناکی کے ساتھ وہ اپنا احترام بھی جبراً کرواتی ہے۔ہمارے ہاں ”قیامت“کا جو عقیدہ ہے اس میں بھی مکمل تباہی کے ساتھ ”قیامت“پر ایمان(احترام)بھی لازمی ہے۔اب خدا جانے اجتماعی حافظے کے سفر کے دوران یہ محض ت اور ق کا فرق ہے ،یا سمیری دیومالا کے عقب میں بھی کہیں کوئی مذہبی عقیدہ موجود تھا۔مجھے اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں یاد آئی ہیں لیکن ان کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
بعض سیدھی سادی مذہبی روایات اور عقائد کے اردو شاعری میں ذکر کو بھی یحییٰ نشیط نے اسطوری رنگ میں پیش کیا ہے۔ جبکہ شاعری میں بھی سیدھے سبھاؤذکر والی مثالیں پیش کی ہیں۔چونکہ ان کے پیش نظر ایسا ہی تھا سو انہوں نے اس حوالے سے اچھی محنت کی ہے۔تاہم اس کتاب کے مطالعہ کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ یحییٰ نشیط صاحب کو اللہ تعالیٰ ہمت اور توفیق دے تو وہ اساطیرکی تہذیبی و ثقافتی سطح تک رہتے ہوئے اور اردو شاعری میں(بلکہ اردو کی تخلیقی نثر میں بھی) علامتی اور استعاراتی رنگ میں مذکور اساطیر کو دریافت کریں۔ایک وسیع میدان اُن کا منتظر ہے!
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: ۱۳۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۹ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔