ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانوں میں ترقی پسند تحریک سے پہلے والے”انگارے“ کی تپش بھی ہے اور ترقی پسند تحریک کی نظریاتی باغیانہ حدت بھی۔لیکن ان دونوں کے ساتھ وہ جدیدتر علوم و انکشافات سے بڑی حد تک باخبر ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے موضوعات کے انتخاب میں صرف جلاؤگھیراؤکی باغیانہ روش نہیں اپناتے بلکہ اپنے موضوعات کو جدید ترعلوم و انکشافات کے آئنے سے گزرنے دیتے ہیں۔وہ انقلابی انداز نہیں اختیار کرتے بلکہ باغیانہ روش سے گزرتے ہوئے اپنے موضوع کو تازہ ترین علمی حوالوں سے تقویت پہنچاتے ہیں۔یہ ایسی توڑ پھوڑ کا عمل ہے جو نئی تعمیر کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ان کے افسانوں میں اختصار کا وصف بھی ان کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔بلند اقبال اپنے مختصر افسانوں کو افسانچہ بھی نہیں بناتے اور غیر ضروری طور پر طویل بھی نہیں ہونے دیتے۔ان کے اختصار کی یہ خاصیت مجھے ان کے اندر چھپے ہوئے ایسے صوفی کا پتہ دیتی ہے جو جزو میں کل کو دیکھنے اور دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جس دن بلند اقبال اپنے موجودہ باغیانہ موضوعاتی حصار سے تھوڑا سا بھی باہر نکلے مجھے یقین ہے،ان کے اندر کا صوفی سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔اس بات کو آسان پیرائے میں یوں بھی کہہ سکتا ہوں کہ ابھی تک بلند اقبال کے افسانوں پر پدری رنگ چھایا ہوا ہے۔جب وہ اس سے تھوڑا باہر کو لپکے تو مادری رنگ میں رنگین ہو جائیں گے اور اسی میں ان کا صوفی رنگ ظاہر ہوگا۔یہ امکانات کی بات ہے۔ موجودہ صورتحال میں جو کچھ موجود ہے وہ بھی بلند اقبال کی طرف سے اردو افسانے میں ایک قابلِ قدر حصہ ہے۔
ڈاکٹر بلند اقبال کے بارے میںیہ بات بہت سے لوگوں کو معلوم نہ ہو گی کہ ادبی دنیا میں انہیں سب سے پہلے” جدید ادب“ نے متعارف کرایا تھا۔اس وجہ سے میری ہمیشہ یہ دعا رہتی ہے کہ اردو افسانے کی دنیا میںڈاکٹر بلند اقبال کا اقبال مزید بلند ہوتا رہے۔انشاءاللہ ایسا ہی ہو گا۔ان کے افسانوں کا یہ دوسرا ایڈیشن میری دعا کے قبول ہوتے چلے جانے کا ایک ثبوت ہے۔
(مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۱۲۔ستمبر ۲۰۱۰ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔