یہ موضوع اس لحاظ سے میرے لیے گہری دلچسپی کاموجب ہے کہ میں اس پر سال ۲۰۰۰ءسے اب تک مختلف پیرائے میں اظہار خیال کرتا چلا آرہا ہوں۔ اور حال ہی میں اپنے ایسے بہت سارے اقتباسات کو یکجا کر کے ایک مضمون کی صورت میں بھی پیش کر چکا ہوں،جو کلکتہ کے ایک روزنامہ عکاس کے ”یورپ میں اردو “ نامی خاص ایڈیشن میں چھپ چکا ہے ۔تاہم دلچسپی کے ساتھ یہ موضوع تشویشناک بھی ہے کیونکہ یورپ کی نوآباد اردو کی بستیوں میں اردو کے مستقبل سے میری کچھ زیادہ امید وابستہ نہیں ہے۔حتیٰ کہ اردو کی بستیوں کی ترکیب بھی مجھے موزوں نہیں لگتی۔میں اعداد وشمار کے کسی چکر میں ڈالے بغیر تین حوالوں سے مختصر اور ٹو دی پوائنٹ بات کرنے کی کوشش کروں گا۔
۱۔یورپ میں اردو زبان سیکھنے میں ہماری نئی نسلوں کی دلچسپی ۔
۲۔ اردو صحافت،میڈیا اور ادبی رسائل کی صورتحال ۔
۳۔ اردو ادب کی صورتحال۔
میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ مجھے اردو کی بستیوں کی ترکیب موزوں نہیں لگتی۔وجہ یہ ہے کہ بستی بسانا کھیل نہیں ہے۔اس حوالے سے اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے شمس الرحمن فاروقی کے ایک حالیہ مضمون ”اردو کی نئی(؟)بستیاں(؟) اور اردو کا پھیلاؤمطبوعہ اخبارِ اردو اسلام آباد شمارہ اگست ۲۰۰۸ء) کا ابتدائی اقتباس پیش کر دیتا ہوں:
”ہمارے بعض دوستوں نے ’اردو کی نئی بستیاں‘ کا نعرہ ایجاد کیا ہے۔خدا ہی جانے کہ یہ نعرہ کسی سنجیدہ مطالعے اور حقائق و اعدادو شمار پر مبنی ہے یا بھولے بھالے اردو والوں کو رجھانے کے لیے ایک سیاسی سٹنٹ ہے“ ۔اسی مضمون کے آخری پیراگراف میں مستقبل کے حوالے سے فاروقی صاحب لکھتے ہیں : ”اصل سوال یہ ہے کہ اردو کا تھوڑا بہت وجود جو بیرونی ممالک میں کہیں کہیں نظر آتا ہے وہ قائم رہے گا یا نہیں؟اور اگر قائم رہے گا تو کیا اتنے بہت سے لوگوں کی مادری زبان اور اولین زبان کی حیثیت سے قائم رہے گا کہ اس میں ادب تخلیق ہو سکے؟مجھے دونوں باتوں میں بہت شک ہے“۔
فاروقی صاحب جن معاملات میں شک کا اظہار کر رہے ہیں مجھے ان میں ان سے زیادہ گہرا شک ہے۔یورپ میں اردو جاننے والے انڈو پاک کے خاندانوں کی مجموعی تعداد دیکھئے اور پھر اعداد و شمار دیکھ لیں کہ اگلی نسلیں اردو سے کس حد تک وابستہ ہیں۔اور اسی وابستگی سے یورپ میں اردو کے مستقبل کا اندازہ کر لینا چاہئے۔
بے شک مشاعروں،کانفرنسوں،اور سیمینارز کے ذریعے اردوکا کافی چرچا ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح کی تقریبات اور ادبی چہل پہل سے یورپ میں اردو کا کچھ نہ کچھ رونق میلہ لگا رہتا ہے۔ انڈو پاک کے ٹی وی چینلز بھی زبان کے فروغ (اور بگاڑ )میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔لیکن یہ سب کچھ تفریحی سطح پر،سیاسی سطح پر اور میلے ٹھیلے کی حد تک ہے۔کہیں کچھ سنجیدہ کاوشیں ہیں بھی تو اس کے ثمرات بولی جانیوالی اردو کے فروغ تک ہیں۔لکھی جانے والی اور پڑھی جانے والی اردو کا فروغ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ برطانیہ میں اردو سیکھنے والوں کے لیے کچھ سرکاری سہولیات میسر ہیں۔ان سے بعض لوگوں نے فائدہ بھی اٹھایا ہے لیکن ایسے لوگوں کی تعدادبستی کے لفظ کے سامنے بہت کم ہے۔بہت ہی کم۔ ان ساری باتوں کو آسان ترین الفاظ میں واضح کرنے کے لیے صرف دو چار سوالات پر غور کی دعوت دوں گا۔ گزشتہ ساٹھ ستر برس کے عرصہ میں جو اردو والے یہاں بسے ہوئے ہیں ۔ ان کی اگلی نسلوں میں سے کتنے بچے ایسے ہیں جو یہاں کے تعلیمی اداروں سے اردو سیکھ کر اردو صحافت یا اردو ادب سے وابستہ ہوئے ہیں؟بی بی سی کی اردو سروس میں کتنے ایسے نوجوان موجود ہیں جنہوں نے برطانیہ میں اردو پڑھ لکھ کر اردو سروس کو جائن کیا ہو؟یہاں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والوں میں سے کتنے نوجوان ہیں جو بطور شاعرو ادیب سامنے آئے ہیں؟ ۔ان سوالوں کے جواب میں ہی اصل حقائق موجود ہیں۔ہمارے سارے اردو جرنلسٹ،میڈیا سٹارز اور شاعرو ادیب وہی ہیں جو پاکستان یا انڈیا سے اردو پڑھ لکھ کر آئے ہوئے ہیں۔اور یہاں پیدا ہو کر،یہیں سے اردو پڑھ لکھ کر اردو کی ادبی یاصحافتی دنیا میںآنے والے لوگ کہیں بھی نہیں ہیں۔
اردو صحافت نے مختلف اخبارات اور ہفت روزوں کی صورت میں اپنے اپنے حصے کا چراغ جلا رکھا ہے۔ان چراغوں کو تیل عام طور پر میری عمر کے اور مجھ سے سینیئر لوگ ہی فراہم کر رہے ہیں۔نئی نسل کے نہیں۔ اخبارات میں انگریزی صفحات شامل کیے جا رہے ہیں اور غور کیجئے کہ اردو اخبارات کے انگریزی صفحات تدریجاً بڑھتے جا رہے ہیں۔اس آہستہ رو تبدیلی سے بھی مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اردو،ہندی ٹی وی چینلزکی یلغار نے اردو زبان کو بلاشبہ ایک بڑا سنبھالا دیا ہے۔اس کا عتراف کیا جانا چاہیے۔لیکن ٹی وی چینلز میں معاملہ پھر یہاں آجاتا ہے کہ وہ صرف بول چال کی حد تک اردو کوسنبھالا دے سکتے ہیں۔اس کے بعد تو ذمہ داری خود ہماری بنتی ہے کہ ہم اردو کو لکھنے اور پڑھنے کے معاملہ میں اپنی اگلی نسلوں کو کس حد تک تیار کر پاتے ہیں۔اردو صحافت اور ٹی وی چینلز کے ساتھ یورپ سے نکلنے والے ادبی رسائل کے رویوں کا بھی کچھ ذکر کرنا چاہوں گا۔عام طور پر ہمارے مدیرانِ رسائل کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاں کا جمع شدہ مواداپنے پاکستانی یا ہندوستانی شریک مدیراشاعتی منتظم کو بھیج دیتے ہیں۔اور ساتھ ہی کہہ دیتے ہیں باقی مواد اپنی طرف سے ڈال کر اسی صفحات کا،یا سو ،دو سو صفحات کا رسالہ تیار کر دو۔اکا دکا ایسے رسائل ملیں گے جن کے پیچھے کسی مدیر کا ذہن کام کرتا دکھائی دے۔میں نے ۱۹۹۹میں جدید ادب جاری کیا تھا تو اس کے دو شماروں کے بعد اسے بند کر دیا تھا کیونکہ میرے سامنے بھی یہ مسئلہ تھا کہ میں رسالہ گوجرانوالہ یا ایبٹ آبادسے چھپوا رہا ہوں تو اس میں وہاں کا مقامی مواد بہت زیادہ شامل ہوجاتا تھا۔میرا عمل دخل بہت کم رہ جاتا تھا اور مدیر کہلانے والی بات مذاق لگتی تھی۔اسی وجہ سے میں نے دو شماروں کے بعد پرچہ بند کر دیا۔اور پھر تب اسے جاری کیا جب ایسی صورتحال بن گئی کہ میں اس کی ہر سطر کو خود سیٹ کرتا ہوں اور میری سیٹ کی ہوئی ہر سطر کے مطابق ہی رسالہ شائع ہوتا ہے۔اب آپ مجھ سے ہزار اختلاف کر سکتے ہیں لیکن آپ کو یہ صاف دکھائی دے گاکہ رسالہ کے پیچھے ایک مدیر کا ذہن کام کر رہا ہے۔میری دعا ہے کہ دوسرے ادبی رسائل کے مدیران کو بھی ایسی توفیق مل سکے کہ اپنے رسائل کے عقب میں وہ خود کام کرتے ہوئے دکھائی دیں ۔
رسائل کی مالی امداد کرنا مستحسن امر ہے بشرطیکہ اسے محض ”دھندہ“ نہ بنا لیا جائے۔اشتراکِ عمل ،تعاون باہمی سے اگر کسی رسالہ کو جاری رکھا جا سکتا ہے تو یہ بھی ادب کے لیے غنیمت ہے۔لیکن اپنے رسالہ میں شامل کیے جانے والے شاعروں اور ادیبوں سے یعنی تخلیق کاروں سے ایک مقررہ رقم وصول کرکے پھر اسی رقم سے انڈو پاک کے نقادوں سے ان انویسٹمنٹ کرنے والے تخلیق کاروں پر مضامین لکھوا کر شائع کرنااردو کی ان بستیوں کا اور ان کے ادب کا مذاق اڑوانے کے مترادف ہے۔میں یورپ سے نکلنے والے صرف ان ادبی رسائل کے حوالے سے بات کر رہاہوں جو کسی بھی خامی یا کمزوری کے باوجودادب اور تہذیب کے باہم رشتہ کو قائم رکھنے والے ہیں۔
بعض مغربی ممالک میں اردو کے حوالے سے ایسی ادبی یا ثقافتی تنظیمیں قائم ہیں جہاں کی حکومتیں انہیں بھاری سالانہ گرانٹ دیتی ہیں،وہ لوگ ادبی کانفرنسوں،سیمیناروں اور عالمی مشاعروں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔لیکن عمومی طور پر ایسی تنظیموں کے منتظمین کا ادب کی دنیا سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا ۔
ایسے منتظمین جینوئن شعروادب سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔سطحی اور میڈیاکر قسم کے غیر تخلیقی ادیبوں کے ساتھ مل کر یہ لوگ بزعم خود ادب کی عظیم الشان خدمات بجا لا رہے ہوتے ہیں۔
اس سلسلہ میں اپنی طرف سے کوئی زیادہ رائے دینے کی بجائے ندا فاضلی کے ایک کالم کا ایک اقتباس درج کر دیتا ہوں۔یہ صرف خلیجی ممالک کے منتظمین کی نہیں بلکہ ساری بیرون بر صغیر کی ”اردو کی بستیوں“ کی ادبی تنظیموں کے منتظمین کی عمومی صورتحال ہے۔
’پچھلے دنوں دوحہ قطر فروغ اردو کا سالانہ مشاعرہ ہوا تھا۔مجھے دعوت نامہ ملا تو میں نے مشاعرے کے کنوینر سے کہا کہ ہندوستان سے جو شاعر بلائے جاتے ہیںان میں اکثریت ان شاعروں کی ہوتی ہے جن کا شاعری سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ان کے اصرار پر میں نے کچھ نام انہیں بتائے۔ان میں ایک نام مشہورجدید شاعر محمد علوی کا بھی تھا۔لیکن کنوینر صاحب کئی شعری مجموعوں کے صاحبِ اسلوب شاعر محمد علوی کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔“
(ندا فاضلی کے کالم تماشا مِرے آگے۔۔سے اقتباس
جلی عنوان ”جب بازارمیں کھوٹے سکّوں کی بہتات ہو توکھرے سکے بازار سے باہر بھی ہو جاتے ہیں“
مطبو عہ ادبی سیکشن روزنامہ انقلاب ممبئی انٹر نیٹ ایڈیشن۲۲جون ۲۰۰۸ء)
اور اب مقطع میں آرہی ہے سخن گسترانہ بات۔۔۔۔یورپ میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کی صورتحال۔
یورپ کی اردو کی ادبی دنیا میں شعرائے کرام کی کثرت ہے۔نثر نگاروں کی تعداد بہت کم ہے۔ادب کے تازہ ترین اشوز سے واقفیت رکھنے والوں کی تعداد افسوسناک حد تک کم ہے اور اسی مناسبت سے ادب کے تازہ ترین اشوز پر مباحث میں حصہ لینے والوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ جو چند اہم علمی اور ادبی شخصیات ہیں وہ عام طور پر یہاں کے ”بین الاقوامی مشاعروں“ اور سیمینارز میں شاید ہی کبھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی شاعری میں چار طرح کے شعراءپائے جاتے ہیں۔ پہلی قسم جینوئن شعرائے کرام کی ہے جو اردو ادب کے مرکزی دھارے میں بھی اپنی ایک واضح شناخت رکھتے ہیں۔یورپ بھر میں موجودایسے شعراءکی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
دوسری قسم ایسے شعرائے کرام کی ہے جو شعر تو کہتے ہیں لیکن بہت واجبی سے۔لیکن ان کا دَم اس لحاظ سے غنیمت ہے کہ یہ لوگ جو کچھ لکھتے ہیں،خود لکھتے ہیں۔ ان میں بعض شعراءایسے ہیں جن سے مستقبل میں زیادہ اچھی شاعری کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ تیسری قسم ان شاعروں کی ہے جو جتنے بے وزن شاعر ہیں اتنے ہی اعتماد کے ساتھ اپنا کلام سناتے بھی ہیں اور چھپواتے بھی ہیں۔چوتھی قسم ان متشاعروں کی ہے جو وزن کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن چونکہ خود شاعر نہیں ہیں اس لیے پاکستان اور انڈیا کے استاد اور کاروباری شاعروں سے سادہ کاغذ پر اصلاح لے کر شاعر بن گئے ہیں۔ان میں ایسے بھی ہیں جو سادہ کاغذ کا بھی تردد نہیں کرتے اور کلام کی قیمت اور کتاب کی اشاعت کی لاگت کا ٹوٹل کرکے پوری رقم بھیج دیتے ہیں اور یورپ میں بیٹھے بٹھائے مطبوعہ شعری مجموعوں کے خالق و مالک قرار پا جاتے ہیں۔ میں اس حوالے سے پہلے ہی نہ صرف بہت کچھ لکھ چکا ہوں بلکہ کئی متشاعروں کی نشاندہی بھی کر چکا ہوں۔یہاں ڈاکٹر جواز جعفری کے ایک تازہ انٹرویوکا اقتباس پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔ڈاکٹر جواز جعفری نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ’ ’اردو ادب،یورپ اور امریکہ میں“کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔جواز جعفری صاحب فرماتے ہیں:
” یہ وہ لوگ ہیں جو بیس تیس سال پہلے روزی روٹی کے چکر میں باہر گئے تھے۔کچھ عرصہ تو انہوں نے خوب دل لگا کر ڈالر اکٹھے کیے،جب جیبیں بھر گئیں تو جڑوں کی تلاش کا مسئلہ ستانے لگا۔چنانچہ بیرون ملک منعقد ہونے والے اردو زبان کے مشاعروں اور کانفرنسوں میں آنا جانا شروع کر دیا۔بعد ازاں اپنی
کمیونٹی میں نمایاں ہونے کا شوق اُنہیں ادب کی طرف لے آیا۔لیکن بے ہنر ہونے کے باعث انہیںپاک و ہند کے ادبی منشیوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔آجکل پاک و ہند کے ضمیر فروش شاعرڈالروں کے عوض ان جعلی شاعروں کے لیے دھڑا دھڑ شعری مجموعے تخلیق کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک میرا تعلق ہے میں توہمیشہ ہی سے ادب میں جعل سازی کے خلاف آواز اُٹھاتا چلا آرہا ہوں۔ اور اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں بھی اس ظلم کے خلاف مزاحمت کی ہے،مگر ہمارا عمومی رویہ یہی ہے کہ جب یہ جعلی اہلِ قلم ہمارے ہاں آتے ہیں تو ہم ان کے اعزاز میں ہونیوالی تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے ان میں جانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔“
(اقتباس از انٹرویو ڈاکٹرجواز جعفری
مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت، لاہور،ادبی صفحہ انٹرنیٹ ایڈیشن۔۴اپریل ۲۰۰۸ء)
نثر نگاروں میںافسانہ نگاری کی طرف نسبتاً زیادہ اور بہتر توجہ ہے۔افسانہ نگاری میں چند ایسے افسانے لکھے گئے ہیں جنہیں اعلیٰ درجہ کے افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔تنقید نگاری میں ہمارے ہاں معیاری تنقید لکھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔سرقہ اور استفادہ کرنے کا رجحان بعض نقادوں کے ہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ویسے انڈیا میں پوسٹ ماڈرن ازم کے حوالے سے سینکڑوں صفحات انگریزی ادب سے ڈائریکٹ سرقہ کرنے والے نقاد کی نشاندہی کے بعد ہمارے ہاں کے سرقہ کرنے والے نقاد تو بہت ہی معصوم قرار دئیے جانے کے لیے لائق ہیں۔ تحقیق کے باب میں جتنا کام ہوا ہے،اس کی مقدار کم ہونے کے باوجود اپنے اپنے موضوع کے حوالے سے اس کام کی اہمیت بنتی ہے۔مرتب کی حیثیت سے کیے جانے والے بعض کام بھی عمدہ ادبی پروجیکٹس میں شمار کیے جانے چاہئیں۔
نثر اور شاعری کی مجموعی صورتحال کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میری عمر کے موجود لوگوں کی زندگیوں تک رہے گی۔اس کے بعد دو صورتیں امکانی ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان اور انڈیا سے اردو کے شاعر اور ادیب یورپ کی طرف نقل مکانی کرتے رہیں اور اس طرح یہاں اردوکا ادبی میلہ سجا رہے۔دوسری یہ کہ یہاں پیدا ہونے والے ہمارے بچوں میں ایک قابلِ ذکر تعداد اردو سے گہری وابستگی کا مظاہرہ کرے اور ان میں سے ہی اردو کے نئے شاعر اور ادیب پیدا ہوں۔دوسرے امکان کی گنجائش شاید اعشاریہ کے بعد بھی کئی زیرو لگا کرپھر ایک پرسنٹ ہے۔نقل مکانی کرکے آنے والے ہم آپ جیسوں کے دَم سے جو رونق لگی ہوئی ہے اس پر اردو کے مستقبل کا جتناانحصار کیا جا سکتا،بس وہی اردو کا مستقبل ہے۔
ہاں ٹی وی چینلز کے موثر کردار کی وجہ سے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بولی جانے والی زبان کے طوراردو بہر حال یورپ میں اپنے بولنے والوں کے ہونٹوں پر رہے گی۔ تحریری اور ادبی اردو کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ہے۔تاہم جو دوست اس بارے میں بہت زیادہ پُر اُمید ہیں،میں دعا کرتا ہوں کہ ان کی امیدیں بر آئیں اور میرے سارے خدشات بے بنیاد اور اس حوالے سے میرا سارا لکھا غلط ثابت ہو۔
(مطبوعہ جزیرہ جرمنی۔شمارہ :۱۔ ۲۰۰۹ء)