(سفر نامہ)
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اردو کے ممتاز ادیب اور صحافی ہیں۔سفرا نامے،خاکے،رپورتاژ،کالم نگاری،اقبالیات و پاکستانیات،تنقید و تراجم،پشوریات پر ان کی مجموعی طور پر ۴۹کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔زیرِ نظر سفر نامہ ابنِ بطوطہ کے خطوط کے ساتھ ان کی کتابوں کی ہاف سنچری مکمل ہو رہی ہے۔اس میں صرف تین کتابیں ترجمہ سے متعلق ہیں جبکہ باقی ساری کتابیں اوریجنل ورک کے ذیل میں آتی ہیں۔آج کے دور میں جب کسی اونچی دوکان والے نام کی ساٹھ کتابوں کی حقیقت کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اوریجنل ورک کہلانے والی تو مشکل سے پانچ کتابیں نکلی ہیں۔باقی سب قینچی ورک کی مختلف اشکال ہیں۔کہیں ترتیب،کہیں تدوین،کہیں ترجمہ اور کہیں سرقہ۔ایسے ماحول میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے دامن میں پچاس کے لگ بھگ اوریجنل ورک والی کتابوں کا ہونا بجائے خود ایک اعزاز ہے۔
ابنِ بطوطہ کے خطوط میں ہالینڈ،جرمنی،فرانس ،برطانیہ،امریکہ اور ترکی کے سفر کا احوال درج ہے۔ ۸جولائی ۲۰۰۷ءسے لے کر ۲۹اگست ۲۰۰۷ءتک کے عرصہ پر محیط اس سفر کی روداد کو ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے اپنے سابقہ سفر ناموں سے مختلف انداز میں لکھا ہے۔انہوں نے مختلف ملکوں کے شہروں سے اپنے مختلف عزیزوں اور دوستوں کو خطوط لکھے،جن میں اپنے سفر کی روداد ساتھ ساتھ بیان کرتے گئے۔یوں یہ سفر انہوں نے اکیلے نہیں کیا بلکہ ان کے وہ سارے عزیز و اقارب اور دوست احباب بھی ایک رنگ میں اس سفر میں ان کے ساتھ رہے جنہیں وہ ساتھ کے ساتھ اپنی روداد لکھ کر بھیج رہے تھے۔اس انداز تحریر نے اس سفر نامہ کو ایک انفرادیت بھی عطا کر دی ہے۔
اس سفر نامہ میں متعلقہ ممالک کے بارے میں اعداد و شمار والی معلومات سے زیادہ ڈاکٹر اعوان کے ذاتی تجربات،مشاہدات نے سفر کی روداد کو بے ھد دلچسپ بنا دیا ہے۔انہوں نے مغربی ممالک کے خوبصورت اور قابلِ تقلید رویوں کو بھی اجاگر کیا ہے اور ان معاشروں کے منفی اثرات کی بھی نشان دہی کی ہے۔یورپ کے مقابلہ میں انہیں امریکہ زیادہ اچھا لگا لیکن یورپ کی خوبیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ترکی کی روداد میں ان کے جذبات کا بہاؤکئی بار ماضی اور حال میں مدغم ہوتا رہا۔جرمنی میں جن دنوں میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان تشریف لائے،اُن دنوں میں جرمنی میں گزشتہ بیس برسوں میں سب سے زیادہ گرمی پڑرہی تھی۔چنانچہ انہوں نے جرمنی کا نام گرمنی رکھ دیا اور اب جب میں یہ تبصرہ لکھ رہا ہوں،۷جنوری ۲۰۰۹ءکو جرمنی میں ہمارے علاقہ میں ٹمپریچر منفی سولہ ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔انہوں نے چار دنوں کا تجربہ لکھ دیا ہم پندرہ برسوں کے تجربات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ سفر نامہ اپنے انوکھے انداز تحریر کے ساتھ اپنے دلچسپ،معلوماتی اور خوبصورت تجربات و مشاہدات کی بنا پرخصوصی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ مغربی ممالک کی سفرنامہ نگاری میں ”ابنِ بطوطہ کے خطوط“کوایک منفرد و اہم حیثیت حاصل رہے گی۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: ۱۳۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۹ء)