شمیم حنفی اردو ادب کی ایک اہم اور معتبر علمی شخصیت ہیں۔خیال کی مسافت ان کے تنقیدی مضامین کا تازہ مجموعہ ہے۔پریم چند،علامہ اقبال،منٹو،راجندر سنگھ بیدی،میرا جی،ن۔م۔راشد،فیض احمد فیض،قرة العین حیدر،انتظار حسین،علی سردار جعفری،اخترالایمان کے فن یا فکر کی مختلف جہات کے حوالے سے انہوں نے عمدہ مضامین تحریر کیے ہیں۔”اردو ادب کی صورتحال “سے لے کر ”اکیسویں صدی کا ادب،کچھ سوال“ تک انہوں نے بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ادب اور اردو ادب کی مجموعی صورتحال کو گہری نظر سے دیکھا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے مایوس کن صورتحال کے باوجود امید کا چراغ جلایا ہوا ہے۔جدیدیت اور اردو شاعری، ادب میں نئی حسیت کا مفہوم،کل کی کہانی،غزل کا سوالیہ نشان،طویل نظم سنہ ساٹھ کے بعد اور نئی تنقید کا المیہ ،مضامین شمیم حنفی کی تنقیدی بصیرت کا اظہار ہیں۔مشرق و مغرب کی آویزش میں انہوں نے انگریزی کے ادبی رسالہ”ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ“کی ہزار سالہ غلط بخشی کا علمی تجزیہ کیا ہے۔مذکورہ رسالہ نے ۱۹۹۹ءمیں ایک ہزار برس کی سب سے اہم کتابوں کی نشان دہی کا کام کیا،جس میں ابنِ خلدون کو چھوڑ کر باقی سب کے سب مغربی مصنفین کو شامل کیا گیا۔اس سے تمام تر روشن خیالی کے باوجود اہلِ مغرب کی علمی و ادبی تنگ نظری کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔کسی غم و غصہ کے بغیر نہایت سنجیدگی اور متانت سے لکھا گیا یہ مضمون انگریزی میں ترجمہ ہو کر اہلِ مغرب تک پہنچنا چاہیے۔
ہمارے ہراچھے سے اچھے لکھنے والے کابھی ایک مخصوص حلقۂاحباب ہوتا ہے اور اپنے تمام تر تجزیوں اور تبصروں میں بڑی حد تک غیر جانبدار رہتے ہوئے بھی ہم اپنے حلقۂاحباب کی نگارشات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔شمیم حنفی کے ہاں بھی یہ رویہ صاف دکھائی دیتا ہے اور کسی قسم کا انقباض پیدا نہیں کرتا،تاہم ایک دو مقامات پر ان کے رویے سے ہلکی سی حیرت ہوئی۔مثلاً اپنے مضمون”طویل نظم سنہ ساٹھ کے بعد“میں انہوں نے کیسے کیسے نظم نگاروں کے سامنے وزیر آغا کی شاہکار نظم”آدھی صدی کے بعد“کو اتنا سرسری لیا ہے کہ میں حیران رہ گیا۔اس مضمون میں مذکور ساری نظموں میں سب سے اعلیٰ ترین نظم وزیر آغا کی آدھی صدی کے بعد تھی اور اسی کو نظر انداز کر دیا گیا۔”اردو ادب کی موجودہ صورتحال“میں انہوں نے بڑا متوازن انداز اختیار کیا ہے ۔ ایٹمی جنگ کے خطرہ کا احساس کرتے ہوئے میں نے ۱۹۸۰ءسے ۱۹۹۱ءکے دوران تین مختلف کہانیاں لکھی تھیں۔انڈوپاک کے ایٹمی دھماکوں کے معاًبعدمیں نے وہ تینوں کہانیاں اپنے پیش لفظ کے ساتھ”ایٹمی جنگ“ کے نام کے ساتھ اردو اور ہندی اسکرپٹ میںشائع کرا ئی تھیں۔ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے شمیم حنفی نے جو حوالے شاملِ مضمون کیے ہیں۔میری ’ایٹمی جنگ‘ان کی نظر سے گزری ہوتی تو شاید وہ اسے بھی پذیرائی بخشتے۔
مجموعی طور پر” خیال کی مسافت‘ ‘شمیم حنفی کی تنقیدی بصیرت کی آئینہ دار ہے،جو بڑی حد تک متوازن اندازِ نظر کی حامل ہے۔
(مطبوعہ جدیدادب جرمنی۔شمارہ :۱۲۔جنوری تا جون ۲۰۰۹ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔