منشا یاد اردو کے معروف و ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ڈاکٹر اقبال آفاقی ایک اہم نقاد اور ادبی تجزیہ نگار ہیں۔میں ان کی ناقدانہ نگاہ اور تجزیاتی انداز کا ایک عرصہ سے خاموش مداح ہوں۔اب انہوں نے منشا یاد کے افسانوں میں سے اپنی پسند کے ۲۱افسانے منتخب کیے ہیں۔اس انتخاب کے شروع میں انہوں نے ایک طویل مقدمہ ”کہانی اور منشا یاد“تحریر کیا ہے ۔اس مقدمہ میں انہوں نے عمدگی کے ساتھ منشا یادکی کہانیوں سے ملاقات کرائی ہے۔منشا یاد کا اپنا مرتب کردہ انتخاب”شہرِ فسانہ“زیادہ بھر پور انتخاب تھا تو یہ انتخاب بھی اپنے اندر جامعیت کی خوبی لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر اقبال آفاقی کے طویل مقدمہ کا ایک اقتباس ان کے مجموعی اندازِ نظر کی بہترین ترجمانی کرتا ہے:
”منشا یاد کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان گرے پڑے لوگوں کو ایک ایسی نظر سے دیکھا ہے کہ تحیر زا بصیرت کا ایک باب کھل جاتا ہے۔ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کیا ردِ عمل کی یہ صورتیں بھی ممکن ہو سکتی ہیں۔کیا انسانی جبلّتیں اس طرح کے کھیل بھی کھیل سکتی ہیں۔یہ بھوک کے عذاب،موت کے خوف،تنہائی اور بے بسی کے مارے اور زمانے کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں،جیسے تھور زدہ زمین،جیسے اونٹ کٹارے،جیسے صحرا کی کبڑی جھاڑیاں،جیسے ویران بستیوں کے کتے،گیدڑ یا بھوت پریت۔منشا یاد بڑا جادوگر ہے۔وہ کتوں اور گیدڑوں کو انسان بنا دیتا ہے۔وہ صحرا کی کبڑی جھاڑیوں کو قد آور درختوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔اس کی جادو کی چھڑی سے اونٹ کٹارے گلاب کی خوشبو دینے لگتے ہیں اور تھور زمین گل و گلزار کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔یہ جادو گری نہیں تو اور کیا ہے!مُردوں کو زندہ کرنا مسیحائی ہے۔وہ مسیحا ہے ،گرے پڑے بدبودار لوگوں کا مسیحا۔جن کا شرفِ انسانیت وہ بحال کردیتا ہے“
اس انتخاب میں ان۲۱افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔تیرھواں کھمبا،راستے بند ہیں،کچی پکی قبریں،پانی میں گھرا ہوا پانی،ماس اور مٹی،بوکا،تماشا،جیکو پچھے،دامِ شنیدن(ڈنگر بولی)،دنیا کا آخری بھوکا آدمی،وقت سمندر،سارنگی،بیتال کتھا،زوال سے پہلے،شجرِ بے سایہ،پنج کلیان،چیزیں اپنے تعلق سے پہچانی جاتی ہیں،ایک تھی فاختہ،ساجھے کا کھیت،بحران اور کہانی کی رات۔
(مطبوعہ جدیدادب جرمنی۔شمارہ :۱۲۔جنوری تا جون ۲۰۰۹ء)