میرے ادبی کام کے بارے میں عزیزی منزہ یاسمین نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے سال2000
تا2002 ءکے سیشن میں ایم اے کا تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔میرے لیے یہ مقالہ کئی لحاظ سے خوشی اور اہمیت کا موجب ہے۔ایک یہ کہ میرے بارے میں یونیورسٹی لیول کا یہ پہلا کام ہوا ہے۔ایک اور یہ کہ اس کا تحقیقی اور علمی معیار اتنا عمدہ ہے کہ میرے دیکھے ہوئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کئی مقالات سے بہتر ہے۔اس مقالہ کی تیاری میں پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد صدر شعبہ اردو و اقبالیات اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورخود ایک ذمہ دار نگران تھے تو عزیزی منزہ کے والد محترم ڈاکٹر انور صابر کی رہنمائی بھی منزہ کو میسر تھی۔میرے بہت دور جا کر پھر بہت قریب ہوجانے والے دوست نذر خلیق کے پاس میری کتابوں کا سیت موجود تھا اور مجھ سے متعلق ایسا پرانا میٹر بھی محفوظ تھا جو خود جرمنی میں مجھے بھی دستیاب نہیں تھا،چنانچہ مطلوبہ مواد کی فراہمی میں عزیزی منزہ کو نذر خلیق کا مکمل تعاون بھی حاصل رہا۔اس کے علاوہ انٹر نیٹ کی سہولت کے باعث عزیزی منزہ یاسمین مجھ سے رابطہ کر لیا کرتی تھیں۔میرے توسط سے انہیں میرے بعض عزیزوں اور دوست احباب تک رسائی میسر رہی اور وہ ان سے اپنی تحقیقی ضرورت کا میٹر حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ مقالہ میری توقع سے کہیں زیادہ معیاری ثابت ہوا ۔
کمپوزنگ کے دور میں جہاں بہت سی سہولیات مل گئی ہیں وہیں یہ بھی تجربہ میں آرہا ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود کتابت کی غلطیاں راہ پا جاتی ہیں۔میں اپنی جن کتابوں کی کئی بار درستی کر چکا ہوں،ان میں سے میری گیارہ کتابوں کی عوامی کلیات چھپ کر آئی تو احتیاط کے باوجود اس میں بھی کئی اغلاط سامنے آرہی ہیں۔عزیزی منزہ کا مقالہ کتابی صورت میں چھپا ہے تو اس میں بھی اس قسم کی بعض اغلاط راہ پا گئی ہیں۔ویسے تو اب ہر زبان کے سنجیدہ ادب کا مستقبل خاصا مخدوش دکھائی دے رہا ہے،ایسے میں تحقیق کا شعبہ تو مزید بُرے حال میں جائے گا۔پھر بھی مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے میڈیا کی موجودہ یلغار کے بعد لوگ پھر اُسی طرح ادب کی طرف متوجہ ہوں جیسے چند عشرے پہلے تک ادب سے ان کا ربط ہوا کرتا تھا۔ایسا کچھ ہوا تو یقیناً ادب کے لیے نیک فال ہوگا۔اردو ادب کے بھی اچھے دن آجائیں گے۔سو ان اچھے دنوں کی امید میں میرا جی چاہا کہ اپنے محقق دوستوں کے لیے زیادہ مشکلات کا موجب نہ بنوں۔سو عزیزی منزہ یاسمین کے مقالہ میں کتابت کی جن اغلاط کے باعث کچھ کنفیوژن پیدا ہو سکتا ہے،ان میں سے جن کی طرف میرا دھیان گیا ہے،ان کی درستی(پروف ریڈنگ )کے طور پر یہ چند وضاحتیں پیش کر رہا ہوں۔خدا کرے کہ یہ مضمون چھپتے وقت ان وضاحتوں میں نئی اغلاط راہ نہ پا جائیں۔
کتاب”حیدر قریشی۔۔شخصیت اور فن“کے صفحہ نمبر13 اور23 پر میرے ایم اے اردو کرنے کا سال 1976 ءاور صفحہ نمبر1974 ءدرج کیا گیا ہے۔اصلاً میں نے 1974 ءکا ایم اے کا امتحان دیا تھالیکن اس سال اینٹی احمدیہ تحریک کے باعث پاکستان میں امتحانات نہیں ہو سکے تھے۔1974 ءکے ایم اے کے سالانہ امتحان1975 ءمیں منعقد ہوئے تھے۔یعنی سالانہ امتحان 1974 ء،منعقدہ 1975 ئ۔
صفحہ نمبر 37 پر میرے چوتھے شعری مجموعہ”دعائے دل“کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی شاعری 1993 ءکے وسط سے لے کر 1994 ءتک کے عرصہ پر محیط ہے۔یہاں 1994ءکی بجائے 1996 ءتک ہونا چاہیے تھا۔
صفحہ نمبر 37 پر میرے چوتھے شعری مجموعہ”دعائے دل“کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی شاعری 1993 ءکے وسط سے لے کر 1994 ءتک کے عرصہ پر محیط ہے۔یہاں 1994 ءکی بجائے1996 ءتک ہونا چاہیے تھا۔
صفحہ نمبر 41 پر میرے خاکوں کے مجموعہ”میری محبتیں“کے پاکستانی اور اولین ایڈیشن کا سال اشاعت1996 ءدرج ہے۔عزیزی منزہ نے دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر درست لکھا ہے۔لیکن جب موقعہ مل گیا ہے تو یہاں اپنے ہی ریکارڈ کی درستی کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔میری دو کتابیں”میری محبتیں “ اور ”وزیر آغا ۔عہد ساز شخصیت“ایک ساتھ سال 1995 ءمیں چھپی تھیں۔سعید شباب نے نایاب پبلی کیشنز خانپور کے زیر اہتمام دونوں کتابیں چھاپی تھیں۔دونوں کتابوں کاکاغذ،جلد اور کور ایک سا ہے۔مضامین والی کتاب پر سال 1995 ءچھپا ہے لیکن”میری محبتیں“پر غلطی سے سال 1996 ءچھپ گیا ہے۔”میری محبتیں“ کی اشاعت کا سال 1995 ءہونے کی تصدیق ان دو کتابوں سے بھی ہو جاتی ہے۔
1 ۔انٹرویوز مرتب سعید شباب اس میں سلطانہ مہر کے سوالوں کے جواب میں،میں نے اپنے مجموعہ ہائے نظم و نثرکے طور پر تب تک کی مطبوعہ چار تخلیقی کتابوں کے نام لکھے ہیں۔ان میں ”میری محبتیں“کا نام شامل ہے۔اس تحریری انٹرویو کو میں نے 20 ستمبر1995 ءکو مکمل کر کے بھیجا تھا اور اس تاریخ کا سعید شباب کی کتاب میں مذکورہ انٹرویو کے آخر میں صفحہ 45 پر نوٹ درج ہے۔
2 ۔سخنور مرتب سلطانہ مہر اس میں صفحہ نمبر 131 پر میرے آٹو گراف کے ساتھ 20.9.95 کی تاریخ درج ہے،جو سعید شباب کے نوٹ کی تصدیق کرتی ہے۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر134 پر سلطانہ مہر صاحبہ نے میری مطبوعہ کتابوں میں ”میری محبتیں “کا نام لکھا ہوا ہے۔اس لیے مستقبل بعید کے کسی محقق کی سہولت کے لیے تحیری ہے کہ”میری محبتیں“ کے پہلے اور پاکستانی ایڈیشن کی اشاعت کا سال 1996 ءنہیں بلکہ 1995 ءہے۔
صفحہ نمبر41 پر ہی”میری محبتیں“کے دوسرے ایڈیشن کے سلسلے میں لکھا ہے کہ یہ 1997 ءمیں معیار پبلی کیشنز دہلی نے شائع کیا۔اصلاً یہ ایڈیشن 1998 ءمیں چھپا تھا۔خود منزہ یاسمین کے مطبوعہ مقالہ کے صفحہ نمبر164 پربھی درست سن درج ہے۔
صفحہ نمبر42 پر ڈاکٹر رضیہ حامد کا نام ڈاکٹر رضیہ جامد چھپ گیا ہے۔اردو میں ایک نقطے کی کرم فرمائیوں پر پہلے ہی بہت کچھ کہا جا چکا ہے،یہاں اتنی وضاحت کافی ہے۔
صفحہ نمبر 50 پر میری کتاب”اردو میں ماہیا نگاری“کے انتساب کو نقل کیا گیا ہے اور اس میں گلو کار محمد رفیق کا نام لکھا گیا ہے۔اصل کتاب میں گلوکار محمد رفیع درج ہے۔
صفحہ نمبر64 پر میری شعری کلیات”غزلیں،نظمیں،ماہیے“کے حوالے سے میرا ایک شعر درج کیا گیاہے۔
یہ عشق و شوق یہ ساری محبتیں حیدر مجھے تو سب ترے دل کا فتور لگتا ہے
مذکورہ کتاب میں بے شک یہ شعر اسی طرح درج ہے لیکنیہ کتابت کی غلطی سے ایسا ہوا ہے۔اصل شعر میں ”عشق وشوق“کی جگہ”عشق وِشق“کے الفاظ ہیں۔یہ غزل میرے پہلے شعری مجموعہ”سلگتے خواب“کے صفحہ نمبر49 پردرست الفاظ میں شامل ہے۔
صفحہ نمبر101 پر ماہیوں کے مجموعہ”محبت کے پھول“کا سال اشاعت1992 ءلکھا گیا ہے،جبکہ یہ مجموعہ1996 ءمیں شائع ہوا تھا۔
صفحہ نمبر178 پر”کھٹی میٹھی یادیں“کی دس قسطیں بیان کی گئی ہیں۔اُس وقت تک یہ تعداد ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد میں نے مزید قسطیں بھی لکھ لی تھیں اور اب یادوں کی یہ کتاب تیرہ قسطوں یا تیرہ ابواب کے ساتھ میری کلیات”عمرِ لا حاصل کا حاصل“میں شامل ہے۔٭
صفحہ نمبر212 پر کتاب”اردو ماہیے کے بانی،ہمت رائے شرما“کے صفحات کی تعداد72 لکھی ہے۔ کتاب مذکورہ کے صفحات کی تعداد76 ہے۔
کتاب میں شامل میرے بارے میں مختلف دوستوں کے تاثرات اور خود منزہ یاسمین کی رائے ان سب کا حق ہے اور مجھے خوشی ہے کہ عمومی طور پر سب کا رویہ منصفانہ اور دوستانہ کے بین بین رہا ہے۔کہیں کوئی اختلافی بات ہے بھی تو اس کا حق ہر رائے دہندہ کو حاصل ہے۔تاہم یہاں صرف دو حوالوں کی درستی کرنا ضروری ہے۔
1 ۔صفحہ نمبر26 پر منزہ یاسمین نے لکھا ہے کہ وزیر آغا گروپ سے منسلک ہونے کے باعث نہ تو کبھی میری کوئی تحریر احمد ندیم قاسمی کے رسالہ ”فنون“میں چھپی اور نہ ہی ”جدید ادب“میں احمد ندیم قاسمی کی کوئی تحریر چھپی ہے۔اس سلسلے میں وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ وزیر آغا صاحب کے ساتھ میرا تعلق فکری ربط کا تھا۔اس سلسلے میں کچھ تفصیل اس خاکے میں دیکھ جا سکتی ہے جو میری کتاب”میری محبتیں“میں شامل ہے۔جو مجموعی تاثرا بھارا گیا ہے کسی حد تک درست ہے،تاہم شروع میں قاسمی صاحب نے جدید ادب کے لیے اپنی غزل عنایت کی تھی اور اسے جدید ادب میں شائع کیا گیا تھاثبوت کے طور پر جدید ادب خانپور کے شمارہ نمبر5 ،مطبوعہ جولائی 1979 ءکا حوالہ دے رہا ہوں۔اس کے صفحہ نمبر4 پر قاسمی صاحب کا یہ خط چھپا ہوا موجود ہے:
”آپ باہمت ہیں کہ ادب کی ترویج و ترقی کے لیے اتنے بلند ارادے رکھتے ہیں،حسبِ وعدہ ایک غزل جدید ادب کے لیے پیش کر رہا ہوں،قبول کیجئے۔میں نے تو گزشتہ تین چار ماہ میں کسی رسالے کو کوئی چیز نہیں بھجوائی“
اسی جدید ادب کے صفحہ نمبر 70 پر قاسمی صاحب کی غزل بھی شامل کی گئی ہے۔اس فروگزاشت میں اصل قصور میرے دوست سعید شباب کا ہے۔ان کے پاس جدید ادب کی مکمل فائل موجود تھی۔میں نے انہیں کہا تھا کہ پوری فائل عزیزی منزہ کو فراہم کر دیں۔لیکن وہ اپنی مصروفیات یا سستی کی وجہ سے یہ کام بروقت نہیں کر سکے۔اگر انہوں نے پوری فائل فراہم کر دی ہوتی تو یہ سہو بلا ارادہ راہ نہ پاتا۔
2 ۔صفحہ نمبر238 پر میرے تھوڑے بہت سرائیکی کام کو سراہتے ہوئے عزیزی منزہ نے میری مادری زبان سرائیکی بیان کی ہے۔یہ بھی سہو بلا ارادہ ہے۔میرے خاکوں اور یادوں میں بڑی صراھت کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ میری والدہ پنجابی تھیں،سو میری مادری زبان پنجابی ہے،لیکن چونکہ میرے والد سرائیکی تھے،اس لیے میں نسلاً سرائیکی ہوں۔ویسے سرائیکی اور پنجابی زبانیں اپنے واضح لسانی فرق کے باوجود ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں اور اب تو ان میں سے کوئی ایک زبان جاننے والا دوسری زبان کی بات آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔
صرف تحقیقی مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے یہ وضاحتیں کی ہیں۔منزہ یاسمین کی محنت،ڈاکٹر انور صابر کی ذاتی دلچسپی،پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد کی محبت آمیز نگرانی اور برادرم نذر خلیق کی توجہ کے لیے میں ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔اور اپنی شروع میں لکھی ہوئی بات کو پھر یہاں دہراتا ہوں کہ عزیزی یاسمین نے بلاشبہ اتنی محنت کی ہے کی یہ ایم اے اردو کا مقالہ ہوتے ہوئے بھی پی ایچ ڈی کے کئی مقالات سے زیادہ معیاری ہے۔
اس مقالہ کا لکھا جانا اور اشاعت پذیر ہونا میرے لیے بڑا اعزاز ہے
(مطبوعہ سہ ماہی شعر و سخن مانسہرہ شمارہ ۲۶۔جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء)
٭عمرِ لا حاصل کا حاصل کا عوامی ایڈیشن 2005 ءمیں شائع ہوا تھا،تب تک یادوں کے تین نئے ابواب لکھے گئے تھے جو کلیات میں شامل تھے۔2009 ءمیں اسی عمرِ لا حاصل کا حاصل کا لائبریری ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں کتاب ”کھٹی میٹھی یادیں“کے 18 باب شامل ہیں اور اس کے بعد سے اب تک میں نے یادوں کو لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔مزید تین نئے باب شائع ہو چکے ہیں۔یادوں کی یہ کتاب غالباً میری زندگی کے اختتام پر ہی مکمل ہو گی۔