اپنی چند کتابوں کے پیش لفظ کے طور پر میں نے جو کچھ لکھا ہے،ان میں سے بیشتر ان کتابوں کی حد تک محفوظ ہے۔” ایٹمی جنگ“ کا پیش لفظ اپنے تنقیدی مضامین کے پہلے مجموعہ ”حاصلِ مطالعہ“ میں شامل کر لیا تھا۔”محبت کے پھول“ کا پیش لفظ کتاب”اردو ماہیے کی تحریک“ میں شامل کیا جا چکا ہے۔گیارہ کتابوں کے مجموعہ ”عمرِ لاحاصل کا حاصل“کی اشاعت کے بعد چونکہ اسے بنیادی حوالے کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔اس لیے مجھے احساس رہتا ہے کہ میری دو کتابوں”دعائے دل“ اور ”غزلیں، نظمیں ، ماہیے“میں شامل ”عرض حال “حوالے کے طور پر آسانی سے دستیاب نہ رہیں گے۔سو ان دونوں کتابوں کے” عرض حال“اس مجموعہ میں محفوظ کر رہا ہوں۔اسی طرح منزہ یاسمین کے تحقیقی مقالہ کی اشاعت کے بعد اس کی بعض اغلاط کی نشان دہی کرنا ضروری تھا،اس سلسلہ میں ،میں نے ایک مضمون لکھا تھا،وہ مضمون بھی اس مجموعہ میں شامل کر رہا ہوں۔شاید کبھی کسی ادبی دوست کو ان تحریروں کی ضرورت پیش آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعائے دل
(بہ عنوان:ضروری وضاحت)
۱۹۹۱ءمیں ”سلگتے خواب“کی اشاعت کے بعد۱۹۹۶ء میں میرے دو شعری مجموعے”عمرِ گریزاں“ اور ”محبت کے پھول“منظرِ عام پر آئے تھے۔اور اب ۱۹۹۷ءمیں نیا شعری مجموعہ”دعائے دل“ شائع ہو رہا ہے۔یکے بعد دیگرے یہ مجموعے آنے کا ایک پس منظر تھا۔
۱۹۹۰ءمیں جب میں ”سلگتے خواب“مرتب کرنے لگا تھا تب میری بیس نظمیں موجود تھیں۔مگر میں چاہتا تھا کہ میرا پہلا مجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہو۔چنانچہ میں نے ۱۹۹۰ءتک کی اپنی شاعری میں سے ۲۰نظموں کے ساتھ ایک آزاد غزل اور پانچ غزلیں بھی روک لیں۔غزلیں روکنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ کتاب کی ضخامت ۱۴۴صفحات تک رہے۔۱۹۹۰ءمیں مرتب کردہ میرا شعری مجموعہ”سلگتے خواب“ ۱۹۹۱ءمیں شائع ہو گیا۔۱۹۹۳ءکے وسط تک میں مزید ۲۰غزلیں اور پانچ نظمیں کہہ چکا تھا۔اس دوران ۲۴
ماہیے بھی ہو چکے تھے۔سو میں نے ۲۵غزلوں،ایک آزاد غزل،۲۵نظموں اور ۲۴ماہیوں کا مجموعہ ”عمرِ گریزاں“ مرتب کرکے اپنی ناشر کو بھیج دیا۔یہ شعری مجموعہ ۱۹۹۳ءکے آخر یا ۱۹۹۴ءتک چھپنا تھا لیکن بد قسمتی سے ۱۹۹۶ءمیں جا کر شائع ہوا۔مزید قباحت یہ ہوئی کہ اس میں نہ سرف کتابت کی متعدد غلطیان موجود تھیں بلکہ کئی مقامات پر اسے میرے اصل مسودہ سے بھی مختلف کر دیا گیا ۔
سو یہ سمجھنا چاہیے کہ ”سلگتے خواب “اور عمرِ گریزاں“کی شاعری ۱۹۹۳ءتک کی میری کل شاعری ہے۔”محبت کے پھول“میں”عمرِ گریزاں“کے ۲۴ماہیوں سمیت ۲۰۰ماہیے شامل ہیں۔یہ باقی ماہیے میں نے ۱۹۹۳ءکے وسط سے لے کر ۱۹۹۷ءکے شروع تک کہے تھے۔
”دعائے دل“کی شاعری ۱۹۹۳ءکے وسط سے لے کر ۱۹۹۶ءتک کے عرصہ پر محیط ہے۔یہ مختصر سا مجموعہ اتنی جلدی لانے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اسے شائع کرانا ضروری ہو گیا۔
۱۔ ”عمرِ گریزاں“کی کتابت کی اغلاط اور بے جا ترامیم کودور کرکیاغلاط سے پاک نئے ایڈیشن کو لانے کی ضرورت تھی۔
۲۔ ”سلگتے خواب“کا پہلا ایڈیشن ختم ہو چکا تھا۔اس کے نئے ایڈیشن کو لانے کی ضرورت تھی۔
۳۔۱۹۷۱ءسے ۱۹۹۶ءتک میری شاعری کی عمر پورے پچیس سال بنتی ہے۔میں نے سوچا کہ پہلی دو کتابوں کے الگ الگ نئے ایدیشن چھپوانے کی بجائے ۱۹۹۶ءتک کی شاعری”دعائے دل“کے نام سے چھپوا لوں اور پھر چاروں مجموعوں ”سلگتے خواب“،”عمرِگریزاں“،”محبت کے پھول“ اور ”دعائے دل“ کی شاعری ایک ہی جلد میں لے آؤں۔
سو یوں اب جلد ہی اپنی پچیس سالہ شاعری کا مجموعہ”غزلیں،نظمیں،ماہیے“چھپوانا چاہتا ہوں۔
دعا کریں کہ ایسا کر سکوں!
حیدر قریشی
عرضِ حال
(غزلیں،نظمیں،ماہیے)
”غزلیں،نظمیں،ماہیے“میری اب تک کی کل شاعری یعنی چار شعری مجموعوں کا مجموعہ ہے۔
اس جلد میں اپنے چاروں شعری مجموعوں کی ترتیب کو تھوڑا سا تبدیل کرکے پیش کر رہا ہوں۔یہ تبدیلی اتنی ہے کہ پہلے ساری غزلیں یک جا کر دی ہیں،پھر نظمیں ہیں اور پھر ماہیے۔
غزل نمبر ۱تا ۸۷وہی غزلیں ہیں جو”سلگتے خواب“میں شامل تھیں۔غزل نمبر ۹۷تا۱۰۳وہ غزلیں ہیں جو ”عمرِ گریزاں“میں شامل تھیں اور نمبر ۱۰۴تا ۱۴۰تک کی غزلیں”دعائے دل“ والی ہیں۔
نظموں کے حصہ میں پہلی ۲۵نظمیں”عمرِ گریزاں“سے اور باقی دو نظمیں”دعائے دل“سے ہیں۔”عمرِ گریزاں “کے پہلے ایدیشن میں ناشر کے اخلاص کے باوجود نہ صرف کتابت کی متعدد اغلاط راہ پا گئی تھیں بلکہ کئی مقامات پر اس مجموعے کو میرے اس فائنل مسودے سے بالکل مختلف کر دیا گیا تھا جو میں نے ناشر کو دیا تھا۔سو”عمرِ گریزاں“میں وہ ساری درستی کر دی ہے۔اسی طرح”سلگتے خواب“کے چند مصرعوں پر بھی نظر ثانی کی ہے۔
”محبت کے پھول“میرے ماہیوں کا مجموعہ تھا۔اس کے ماہیے اس کتاب کے آخرمیںشامل ہیں۔”محبت کے پھول“ میں بھی میں نے وضاحت کر دی تھی،یہاں بھی یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ماہیوں کے مجموعہ میں شامل ۲۰۰ماہیوںمیں سے ۲۴ماہیے پہلے”عمرِ گریزاں“ میں بھی چھپ چکے تھے۔
میری دانست میں میری غزل گوئی کے چار ادوار ہیں۔ابتدائی دور جب میں نے روایتی غزل کے انداز میں غزلیں کہیں۔اس دور کی غزلوں میں اس طرز کی غزلیں شامل ہیں:
دھند یادوں میں جیسے بھٹکتے رہے
وہ بھی تکتے رہے،ہم بھی تکتے رہے
ہم جو میدانِ عمل میں ڈٹ گئے
راستے سارے سفر کے کٹ گئے
لے نہ ڈوبے خواہشوں کا یہ تلاطم دیکھنا
ہو نہ جانا خود بھی اس طوفان میں گم دیکھنا
دوسرا دورانتہا پسند جدیدیت کے زیرِ اثر تھا۔تب میں نے جدیدیت کی چکا چوند میں اس ٹائپ کی غزلیں کہیں:
جب آئے موسموں کی زد میں ساونوں کے بدن
ہوا میں بھیگ گئے ننگی بارشوں کے بدن
رستے چلے گئے ہیں خرابوں کی جھیل میں
ہم تشنہ لب ہی رہ گئے خوابوں کی جھیل میں
وہ پچھلی گھڑی شب کی،وہ خوف زدہ چہرہ
سو پایا نہ اک پل بھی خوابوں سے ڈرا چہرہ
تیسرا دور انتہا پسند جدیدیت کے اثر سے نکلنے کا دور تھا۔اس عرصہ کی غزلوں کے بارے میں اتنا کہوں گا کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے میری غزل کے اس انداز کو معروضی رویے کے طور پر دیکھتے ہوئے لکھا تھا:
”حیدر قریشی کے ہاں اس کے نتیجے میں ایک ایسی موہوم سی مسکراہٹ ابھری ہے جس میں شرارت کا عنصر واضح طور پر شامل ہے“
میری غزل گوئی کا چوتھا دور دراصل سابقہ تینوں ادوار کے مثبت اثرات سے مل کر بنا ہے۔اب شاید میں نے تھوڑ ابہت غزل کہنا سیکھ لیا ہے اور مزید سیکھنے کی طرف گامزن ہوں۔
نظم نگاری میں نے اس دور میں شروع کی جب میں انتہا پسند جدیدیت کے حصار سے باہر آرہا تھا۔
میری گنتی کی چند نظموں میں بھی دو انداز واضح ہیں۔ماہیا نگاری کے سلسلے میںمجھے خوشی ہے کہ اردو ماہیے کو پنجابی ماہیے کے وزن اور مزاج کے مطابق کرنے میں مجھے بنیادی نوعیت کا کام کرنے کا موقعہ ملا۔میں نے پنجابی ماہیے کے وزن اور مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے اردو میں ماہیے ہیںاور اس میں موضوعاتی لحاظ سے کچھ نئے تجربے بھی کیے ہیں۔
میں ”سلگتے خواب“اور”عمرِ گریزاں“کے(بالخصوص”عمرِ گریزاں“کا تصحیح شدہ)ایڈیشن ثانی چھپوانا چاہتا تھا۔اسی دوران خیال آیا کہ ۱۹۷۱ءتا ۱۹۹۶ءمیں نے اپنی شعری زندگی کے پچیس سال پورے کر لیے ہیں ،تو کیوں نہ پچیس برسوں کی شاعری ایک جلد میں لاکے اپنی سلور جوبلی منا لوں۔
اگر قارئین کو میری یہ”غزلیں،نظمیں،ماہیے“ یا ان کا کوئی حصہ اچھا لگا تو میں یہ سمجھ کر خوش ہولوں گا کہ اپنی پسندیدگی کے احساس کے ساتھ وہ بھی میری سلور جوبلی کی خوشی میں شریک ہو گئے ہیں۔
حیدر قریشی(جرمنی)