(تنقیدی مضامین)
کرامت علی کرامت سینیئر لکھنے والے ہیں۔تخلیق کے ساتھ تنقید کے میدان میں بھی ان کے فکری جو ہر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔”نئے تنقیدی مسائل اورامکانات“کے مضامین سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادبی منظر نامہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور ادب کی تفہیم کے لیے ان کے سامنے کیا معیارات ہیں۔ہماری تنقید میں جو عمومی انداز اختیار کیا جاتا ہے،اس حوالے سے دیکھا جائے تو کرامت علی کرامت کے مضامین زیادہ بہتر انداز سے سامنے آتے ہیں ۔تاہم مجھے لگا کہ وہ بعض امور میں کسی بہتر نتیجہ تک پہنچنے کی بجائے کہیں آس پاس ہی رہ جاتے ہیں۔صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔”تحقیق و تنقیدبحیثیت تخلیقی ادب“میں انہوں نے تحقیق و تنقید کو بھی تخلیقی ادب کے دائرے میں شمار کیا ہے۔لیکن اس کے لیے بہت دور تک گھوم آنے کے بعد بھی اصل بات تک پہنچے نہیں بس اس کے آس پاس رہ گئے۔کوئی بھی تخلیق کار جب کسی تخلیقی عمل سے گزرتا ہے تو اس کی معلومات(تحقیق)پہلے سے اس کے شعور و لاشعور میں موجود ہوتی ہے۔اور جب وہ اپنے تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے اسے خوب سے خوب تر پیش کرنا چاہتا ہے تو یہ در اصل اس کا تنقیدی عمل ہوتا ہے۔یوں تحقیق و تنقید اصلاً تخلیقی ادب کا حصہ نہیں بلکہ جزوی حصہ ہیں۔ کرامت صاحب اس نتیجہ تک نہیں پہنچے،البتہ اس کے قریب سے گزرتے گئے۔ایک اور مضمون ”اسلام اور صنفِ شاعری “ میں انہوں نے از روئے قرآن شاعری کی ممانعت کے پہلو کو سمجھا ہے اور پھر بعض احادیث اور تاریخی روایات سے شاعری کا جوازپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔جن احادیث اور روایات سے انہوں نے یہ جواز دئیے ہیں مستحسن ہیں۔ مثالی ریاست سے شاعروں کو بے دخل کردینے کے باوجود اچھی شاعری کے لیے یونانیوں نے بھی گنجائش رکھی ہوئی تھی۔ایسی شاعری جو دیوی ،دیوتاؤں کی تعریف و توصیف پر مشتمل ہو۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو احادیث اور دوسری روایات سے پیش کیا گیا جواز بڑی حد تک یونانیوں کے نظریہ ہی سے مماثلت رکھتا ہے۔تاہم میرا خیال ہے کہ قرآن کا شاعری کا تصوربہت واضح ہے۔ ”کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ کن کن وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ باتیں کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے“
اس سے شاعری کا جو قرآنی تصور میری سمجھ میں آتا ہے ،یہ ہے کہ شاعر کے ظاہر اور باطن میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔اس کی شاعری اس کے باطن کی داستان بیان کرے،نہ کہ محض فرضی محبوب اور فرضی تصورات پر مبنی ہو۔جب باطن کے ساتھ ہم آہنگی ہو گی تو کوئی شاعر پر اعتراض نہ کرے گا۔یوں قرآن کے اس فرمان سے مجھے محسوس ہوا کہ ایسے نظریاتی شاعروں کے بر عکس جو ائیر کنڈیشنڈ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کرمزدوروں،کسانوں، غریبوں کی زندگی سنوارنے کی شاعری کرتے ہیں وہ شاعر زیادہ بہتر ہیں جو کارزارِ حیات سے گزرتے ہوئے اپنے تجربات کو بیان کرتے ہیں۔اسی طرح داخلی و نفسیاتی معاملات کا اظہار بھی داخل و خارج میں ہم آہنگی کو ظاہر کرے گا اوراز روئے قرآن شاعر جو کچھ کہہ رہا ہوگا دراصل وہی اس کاطرزِ زندگی بھی ہو گا۔یوں میرے نزدیک قرآن شریف شاعری کی ممانعت نہیںکرتا بلکہ ایک واضح تصورِ شاعری بیان کرتا ہے۔ اور اپنے داخل کے بر عکس شاعری کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے۔ کرامت صاحب مذکورہ آیت درج کرنے کے باوجوداس پر اس زاویے سے زیادہ غور نہ کر سکے۔تاہم ان کے اس مضمون کو پڑھتے ہوئے مجھے اس تفہیم تک رسائی کا موقعہ مل گیا،جس کے لیے ان کا شکر گزار ہوں۔شاید اسی کو چراغ سے چراغ جلانا کہا جاتا ہے۔کرامت علی کرامت صاحب نے ساختیات کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے،اس پر اب مزید کیا عرض کیا جائے کہ اس عرصہ میں نہ صرف پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ گیا ہے بلکہ کئی پُل اور ڈیم بھی بہہ گئے ہیں۔ کرامت علی کرامت کی تنقید وہاں اپنی خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے جہاں وہ زیادہ سے زیادہ ادب کی تفہیم پر توجہ دیتے ہیں۔ادب کی تفہیم کے لیے ان کا رویہ سمجھانے سے زیادہ سمجھنے کا ہوتا ہے ۔ فن پارے کے باطن تک رسائی کے لیے اپنی پوری سوجھ بوجھ کو بروئے کار لاتے ہیں۔
اس مجموعہ میں ۳۶مضامین شامل ہیں،ان میں نظری مباحث بھی ہلکے پھلکے انداز میں آگئے ہیں۔بعض اصناف اور بعض شاعروں ادیبوں کے حوالے سے انفرادی نوعیت کے مضامین بھی شامل ہیں اور اپنی مقامی زبانوںکے شعرو ادب کے ساتھ اردو کے میل ملاپ کا منظر بھی ہے۔مجموعی طور پر کرامت علی کرامت ان سکہ بند نقادوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جو سرا پکڑے بغیر تنقید کی ڈور کوسلجھانے میں الجھے ہوئے ہیں۔کرامت علی کرامت اس لیے بھی بہتر نقاد ہیں کہ وہ بنیادی طور پر تخلیق کار ہیں۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: ۱۴۔جنوری تا جون۲۰۱۰ء)