چند برس پہلے ایک ادبی رسالہ میںڈاکٹر حامد اشرف کا گوشہ شائع ہوا تو اس میں میری یہ رائے شامل تھی۔
”ڈاکٹر حامد اشرف نے تخلیقی طور پر افسانہ اور شاعری میں طبع آزمائی کی ہے۔اس میدان میں وہ کس حد تک کامیاب رہتے ہیں،اس کا بہتر اندازہ اس وقت کیا جا سکے گا جب ان کے افسانوی اور شعری مجموعے شائع ہوں گے۔تنقیدی طور پر ان کے مضامین اس حد تک موضوعاتی تنوع کے حامل ہیں کہ جہیز کی لعنت کے مسائل سے ہوتے ہوئے اور گلبرگہ اور حیدرآبادکے مقامی ادبی احوال سے گزرتے ہوئے انہوں نے دنیائے ادب کی طرف پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کے ذریعے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اردو ادب کی تنقید کی طرف توجہ کی ہے۔یونیورسٹی مقالات کے بعد سے ان کی توجہ تنقید کی طرف بڑھتی جا رہی ہے۔مجھے ان کے مقالات میں جو ایک عمومی خوبی دکھائی دی ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی بین الاقوامیت کی بجائے ادب کی مقامیت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ادب کو اس کے مقامی پس منظر اور مقامی موجودمعیارات کی رو سے پرکھتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ مغربی ادب کے معیارات سے مزیدواقفیت کے بعد وہ اپنے اسی مقامیت کے انداز کو عمدہ طریق سے آگے بڑھا سکیں گے۔
مغربی ادبی تنقیدکا مطالعاتی تاثر ذہن میں رہے تو اردو ادب کی پرکھ کے لیے ہم بہتر طور پراپنے مقامی ادبی معیار وضع کر سکیں گے۔مغربی تنقید سے استفادہ کرکے اردو ادب کو مغرب کا تابع مہمل بنانے کی خواہش رکھنے والے بعض ”بڑوں“کی مابعد جدید تنقیدی بصیرت کا بھانڈا تو عالمی چوراہے پر پھوڑا چکا ہے۔۔۔۔وہاں سے ان کے بلا حوالہ ترجمہ(در اصل سرقہ ) کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔سو اب ضرورت ایسے ناقدین کی ہے جو مغربی ادب سے بھی واقفیت رکھتے ہوں،نئے عالمی تناظر سے بھی با خبر ہوں اور ان سب کے ساتھ ادب کی اپنی مقامیت سے ہی اپنی شناخت کو ظاہر کر سکیں۔مجھے ڈاکٹر حامد اشرف ایک ایسے ہی نوجوان نقاد معلوم ہوتے ہیں،جو آگے چل کر اسی نہج پر کام کرکے اردو ادب کے لیے اپنے معیارات کی تشکیل کا کام کر سکیں گے۔میری دعا ہے کہ ان سے اور ان جیسے دوسرے نوجوان نقادوں سے وابستہ میری توقعات پوری ہوجائیں!“
اب ڈاکٹر حامد اشرف کا مضامین کا مجموعہ ”تزئینِ ادب“شائع ہونے جا رہا ہے تو مجھے ان کی تنقید نگاری کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔اور ایسے لگا ہے کہ وہ آہستہ روی کے ساتھ سہی لیکن تدریجاً آگے بڑھ رہے ہیں۔ادب کی مقامیت کو اہمیت دینے کا ان کا جورویہ ہے وہ اپنی جڑوں میں اترنے جیسا لگتا ہے۔مخدوم کی نظم کا مطالعہ ہو یاڈاکٹر راہی قریشی کی شاعری ہو،محمد علی مہکری ہوں یا ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی ان سب کی شاعری کو موضوع بنا کر اپنے مقامی ادبی منظر کے ماضی و حال کو روشن کرنے کی سعی کی گئی ہے۔حیدرآباد کرناٹک کے لوک گیتوں کی بات ہو یا اس علاقہ کی غزل ہو،ڈاکٹر حامد اشرف اپنے مقامی ،اپنے زمینی حوالوں کو ان کی خوشبو کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔
پھر وہ موضوعاتی پھیلاؤکے ساتھ عمر خیام،علامہ اقبال،مولانا الطاف حسین حالی سے لے کر ڈاکٹر وزیر آغا تک اپنے خیالات کا الگ الگ اظہار کرتے ہیں۔ان سب کے حوالے سے ان کے چار مضامین جہاں ان علمی و ادبی شخصیات کا تعارف کراتے ہیں وہیںان سب کے تئیں ڈاکٹر حامد اشرف کے مطالعاتی انداز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اردو ماہیا پر بھی ان کی تنقیدی نظر دکھائی دیتی ہے۔نذیر فتح پوری اور امین بابر کی ماہیا نگاری پر ان کے مضامین ان کی ماہیا فہمی کی غماضی کرتے ہیں۔
”نظم اور مطالعۂنظم“مضمون نصابی نوعیت کی معلومات فراہم کرتا ہے۔بعض دوسرے مضامین میں بھی کہیں کہیں ایسا احساس ہوتا ہے جیسے درسی نوعیت کی معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔لیکن ہمارے شاعروں اور ادیبوں کی اور بالخصوص نام نہاد ”بین الاقوامی شاعروں اور ادیبوں“ کی ایسے ادبی موضوعات سے عمومی عدم دلچسپی اور ناواقفیت کی بنا پر ایسی نصابی نوعیت کی معلومات کی فراہمی بھی ضروری ہو گئی ہے۔
مجموعی طور پر”تزئینِ ادب“کے نام سے لے کر اس کتاب کے مضامین کے مطالعہ تک ڈاکٹر حامد اشرف کی تنقیدی و تحقیقی بصیرت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔انہیں حوالوں سے مستقبل میں ان کی تنقیدی سوجھ بوجھ کے امکانات بھی کافی حد تک دکھائی دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر حامد اشرف کی اس کتاب کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے میں ان کی علمی و ادبی کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں۔
(ڈاکٹر حامد اشرف کے مضامین کے مجموعہ ”تزئینِ ادب “میں شامل اس مضمون کاکچھ حصہ
غالباً سہواً چھپنے سے رہ گیاہے۔میرے مضمون کا اصل اور مکمل متن یہی ہے)