ایک بادشاہ سلامت کو امورِ مملکت چلاتے چلاتے شاعری کرنے کا شوق چرایا۔بادشاہ سلامت نے کچھ اوٹ پٹانگ قسم کی شاعری کی اور شومیٔقسمت۔۔۔ایک شاعر کو اپنے دربار میں طلب فرما لیا۔اسے اپنا کلام سنایا اور اس کی رائے معلوم کی۔شاعر نے ادب کے ساتھ اور ادبی زبان میں بادشاہ سلامت کو باور کرایا کہ آپ کا کلام موزوں نہیں ہے،ادھیڑ عمری میں شاعری کا آغاز ویسے بھی کچھ فطری سا نہیں لگتا،اس لیے بہتر ہے آپ اچھے شاعروں کو پڑھ کر لطف لیا کریں،خود شاعری نہ کریں۔
گستاخ شاعر کی رائے سنتے ہی بادشاہ سلامت غیض و غضب میں آگئے اور حکم دیا گیا کہ اس بد بخت شاعر کو زنجیروں میں جکڑ کر داخلِ زنداں کیا جائے اور مکمل قیدِ تنہائی میں رکھا جائے۔حکم پر عمل در آمد ہو گیا۔چھ مہینے یا ایک سال کے بعدبادشاہ سلامت نے پھر اس شاعر کو دربار میں طلب کیا۔اس بار شاعر پابہ زنجیر دربار میں لایا گیا ۔بادشاہ سلامت نے اپنا تازہ کلام سناکرپھر اس شاعر سے رائے طلب کی۔اس بار شاعر کوئی رائے دینے کی بجائے جس رستے سے آیا تھا،اُسی رستے کی طرف مڑکر چلنے لگا تو بادشاہ سلامت نے گرج کر پوچھا میری اجازت کے بغیر کہاں جانے لگے ہو؟
شاعر نے گردن موڑ کر بے نیازی کے ساتھ جواب دیا:
اُسی قید خانے میں واپس جارہا ہوں جہاں آپ نے پہلے بھیج رکھا تھاکیونکہ آپ کی شاعری کے بارے میں میری رائے اب بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔
یہ لطیفہ صرف ایک بادشاہ اور ایک گستاخ شاعر کا ہے جبکہ یہاں مغربی دنیا میں اردو ادب کا جوحال ہے اس کے مطابق یہاں بے شمار بادشاہ لوگ شاعر ہیں اور اتنے بادشاہوں کے بیچ میں اکیلا گناہگارسزاوارِ ملامت ہوں۔ شاعری کے بادشاہوں کے دوش بدوش نثر نگاروں کے بادشاہ بھی سامنے آرہے ہیں۔ایسے لوگ جو اپنے گھر میں خطوط کے ذریعے اپنی خیریت اور اداسی کا حال لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے،ادھیڑ عمری کے بعد انہوں نے بھی نثر نگاری کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار کر لی اور اس میں بھی اپنا رویہ وہی شاہانہ اختیار کیا جو شاعری کے بادشاہ لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے۔یعنی کوئی بھی اعلیٰ ترین نثر نگار سے کم نہیں ہے۔کسی کو مبتدی کہنا اس کے لیے گالی ہے۔حالانکہ بیشتر مبتدی کہلانے کے مستحق بھی نہیں ہیں۔ایسے شاہانہ رویوں کے بارے میں اور ایسے بادشاہوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھ چکا ہوں،یہاں اپنی مختلف تحریروں سے چند اقتباسات یکجا کر دیتا ہوں۔مختلف وقتوں میں لکھی گئی یہ تحریریں یکجا ہونے سے ان سب کا ایک مجموعی تاثر بھی سامنے آجائے گا اور میں یہاں کے ادبی بادشاہ لوگوں سے یہ کہہ سکوں گا کہ بادشاہ بھائی! میں نے نیا تو کچھ نہیں لکھا،وہی پرانی باتیں دہرائی ہیں۔بہر حال میرے چند اقتباسات یہاں پیش خدمت ہیں۔
”ایک زمانہ تھا جب مشاعرہ کا ادارہ دوہری افادیت کا حامل ہوتا تھا۔یہ ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ بھی تھا اور نئے لکھنے والوں کی تربیت گاہ بھی تھا۔ اس دور کے گزرنے کے بعد ادبی رسائل کی صورت میں وسیع ذریعۂابلاغ سامنے آیا جو ادبی تربیت گاہ کا کرداربھی مشاعرہ سے کہیں بہتر کرتا ہے۔اس کے باوجود مشاعرہ کی روایت کسی نہ کسی صورت میں ابھی تک چلی آرہی ہے۔ مجھے مشاعرہ بازی کی مخالفت نہیں کرنی لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ ادارہ اپنی ادبی افادیت کھوچکاہے اور ادبی حوالے سے اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ثقافتی میلے کی صورت میں یہ بے شک چلتا رہے۔
ادب کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی آرہی ہے ۔مادہ پرستی کے غلبہ سے لے کر ٹی وی چینلز تک اس کے بہت سے اسباب ہیں۔لیکن ایک بڑا سبب خود ادیبوں کی ادب سے بے توجہی ہے جوادبی شعور کی کمی یا ادبی شعور نہ ہونے کے باعث ہے۔اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عموماً شاعروں کو شاعری کے علاوہ ادب کی دوسری اصناف سے مطالعہ کی حد تک بھی کوئی رغبت نہیں رہی اور ایسی ہی صورتحال دوسری اصناف کے لکھنے والوں کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے۔مستثنیات کو چھوڑ کر ہمارے شاعروں اور ادیبوں کی ادب سے وابستگی کی یہی نوعیت ہے۔اور تو اور شاعری میں بھی یہ حال ہے کہ اپنی ناک سے آگے کسی کو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔یہ سارے رویے خودادیبوں کی ادب سے بے رغبتی کو ظاہر کرتے ہیں۔ایسی صورتحال میں قاری کی کمی کا رونا بے معنی ہو جاتا ہے ۔سو میرے خیال میں عوام میں یا اردو کے قارئین میں ادب کا ذوق پیدا کرنے سے پہلے خود ادیبوں اور شاعروں میں ادب کا ذوق پیدا ہونا ضروری ہے ۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر ادب کے سنجیدہ قاری بنیں۔ان کے اندرSense of Literatureپیدا ہو اور اس کی جھلک دکھائی بھی دے۔مغربی ممالک میں مقیم اردو کے شاعروں اور ادیبوں میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے۔میں یہ بات کسی پر طنز کے طورپر نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقتاً یہ ہمارے ادب کا سنگین مسئلہ ہوتا جارہا ہے۔اس کے نتیجہ میں جعلی شاعروں اور ادیبوں کی ایک کھیپ تیار ہو چکی ہے۔یوں اصل اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔مارکیٹنگ سسٹم کی طرح ادب میں بھی نمبر دو مال کو اوریجنل ادب کے طور پر پیش کیا جارہاہے ۔ اس کے لئے سنجیدگی سے اور بہادری کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے معاملات میں ذاتی دوستیوں اور تعلقات کے مقابلہ میں ادب کو اوّلیت اور اہمیت دینا بے حد ضروری ہے“
(مطبوعہ :مجلہ ملینئیم اردوکانفرنس ۲۰۰۰ء۔انگلنیڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اس المیہ کا ذکر بھی یہاں ناگزیر ہے کہ مغربی ممالک میں جعلی شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی کھیپ پیدا ہو چکی ہے۔تارکین وطن میں سے ایک قابلِ ذکر تعداد ایسے افراد کی ہے جو ایک عرصہ سے مغربی ممالک میں آباد ہیں۔ یہاں کے بڑے مشاعروں میں یہ عبرتناک منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کم از کم ایک تہائی شاعر مکمل بے وزن کلام سنا رہے ہوتے ہیں اور داد پارہے ہوتے ہیں۔رزق کی فراوانی اور نام آوری کے شوق میں بعض نے تو بے وزن شاعری کے مجموعے بھی فخر کے ساتھ چھپوا رکھے ہیں۔ایسے لوگ جتنا ہوتے ہیں اتنا سمجھ میں تو آجاتے ہیں۔لیکن ان کے دوش بدوش اب ایسے شعراءکی کھیپ تیار ہو چکی ہے ،جو چالیس ،پچاس سال کی عمر کے بعد یکایک شاعر بن کر نمودار ہوتے ہیں اور دو برسوں میں ان کے تین چار مجموعے چھپ کر سامنے آجاتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں ایسے ضرورت مند استاد شاعر موجود ہیں جو معقول معاوضہ پر پورا شعری مجموعہ لکھ کر دے دیتے ہیں۔ جعلسازی کے فروغ کے اس خطرناک رجحان پر بروقت گرفت نہ کی گئی تو یہاں اصل اور نقل کا فرق کرنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ یہ اردو ادب کا جنازہ نکالنے والا کام ہو رہا ہے۔“
(مطبوعہ ماہنامہ اخبارِاردو اسلام آباد۔شمارہ اکتوبر ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آج کل شاعری میں جو نئے شعرائ،شاعرات آرہے ہیں ان میں سے اوریجنل لوگوں کو چھوڑ کر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو سرے سے شاعر تو کیا متشاعر بھی نہیں ہیں۔خصوصاً ادھر مغربی ممالک میں تو اب یہ عالَم ہے کہ کوئی بندہ ہو یا بندی ،ایک مصرعہ تک کہنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوئے بھی راتوں رات صاحبِ کتاب بن جاتے ہیں۔پہلے پہل متشاعروں نے بے وزن شعری مجموعے طمطراق سے چھپوائے لیکن بعد میں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے انجام سے عبرت پکڑتے ہوئے شاعری کا شوق رکھنے والے غیر شاعروں نے شاعر بننے کا کامیاب نسخہ دریافت کر لیا ہے۔انڈیا اور پاکستان میں ایسے پُر گو اور استاد قسم کے شعراءکی کمی نہیں ہے جو معقول معاوضہ پر پورا مجموعہ لکھ دیتے ہیں۔سو ان کی برکت سے ایسے لوگ جو ایک مصرعہ بھی وزن میں نہیں لکھ سکتے،پورے مجموعوں کے مالک بن گئے ہیں۔انڈیا یا پاکستان کا ایک سفر کیا جاتا ہے اور ایک مجموعہ تیار ہوجاتا ہے۔یوں مجموعوں پر مجموعے آرہے ہیں۔“
(اقتباس از تاثرات مطبوعہ شعری مجموعہ مٹھی بھر تقدیر مطبوعہ جنوری ۲۰۰۲ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”سوال:دیارِ مغرب میں شعرو ادب کی صورتحال کیسی ہے؟
جواب:ادب کی دو لائنیں ہمارے پورے ادبی منظر میں موجود ہیں۔ایک تخلیقی اور اکیڈمک لائن اور دوسری شوبز نس کی لائن۔مغربی ممالک کے بیشتر شعراءادب کی شوبز لائن سے تعلق رکھتے ہیں۔مشاعرہ بازی‘کتابوں کی رونمائیاں اور ریڈیو ٹی وی کے پروگرام اسی لائن کی چیزیں ہیں۔ویسے کبھی کبھار اس لائن میں کوئی اچھی چیز بھی آجاتی ہے۔دوسری اکیڈمک اور تخلیقی لائن ہے۔اس میں ہمارے ہاں بہت کم لوگ ہیں۔ڈاکٹر گیان چند جین‘ڈاکٹر ستیہ پال آنند‘شان الحق حقی‘ساقی فاروقی‘ہرچرن چاولہ‘جیسے لوگ اس زمرہ میں آتے ہیں۔یہاں کے لوگوں کا بنیادی مسئلہ ادب نہیں بلکہ وطن کی اداسی ہے۔سو اسی یادِ وطن میں لکھ لکھا (”لکھ“ کم اور” لکھا “زیادہ)لیتے ہیں۔اور خود ہی اپنے اعزاز میں تقریبات کراکے خوش ہو لیتے ہیں۔یہاں مشاعروں میں ایک تہائی سے زیادہ شعراءدھڑلے سے بے وزن کلام سناتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔اسی سے ادب کی صورتحال کا اندازہ کرلیں۔بعض شعراء اور شاعرات بے وزن شاعری کے مجموعے بھی چھپوالیتے ہیں اور بعد میں انہیں چھُپاتے پھرتے ہیں ۔ ویسے وہ گروہ ان سب سے بازی لے گیا ہے جو ایک مصرعہ لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن نقد ادائیگی کے نتیجہ میں اپنے نام سے پورا شعری مجموعہ چھپوا لیتا ہے اور اسی پیسے کے بَل پر بھر پور تقریبات کا اہتمام بھی کرلیتا ہے۔مالی رشوت کے ساتھ بعض شاعرات کے معاملہ میں جمالی رشوت کے چرچے بھی سننے میں آرہے ہیں۔“
(ڈاکٹر صابر آفاقی کے مئی ۲۰۰۰ءمیں جرمنی میں لیے ہوئے انٹرویوسے اقتباس۔
مطبوعہ سہ ماہی ادبِ عالیہ پاکستان۔شمارہ اپریل تا جون ۲۰۰۲ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”جواز جعفری:مغرب میں تخلیق پانے والے اردو ادب کے بڑے موضوعات کیا ہیں؟
حیدر قریشی:مغرب میں تخلیق ہونے والا اردو ادب ہمارے ادب کے مرکزی دھارے ہی کے تابع ہے۔ یہاں بعض لوگوں نے جنسی چکاچوند یا پھر فیشن زدہ دہریت کو اپنا موضوع بنانے کی کوشش کی تھی۔جبکہ ان حوالوں سے اردو میں پہلے ہی سے زیادہ اہم کام ہو چکا ہے۔ تارکین وطن کو درپیش معاشرتی مسائل پر زیادہ تر اچھا لکھا گیا ہے تاہم ہجرت کے مسئلہ کی سطح پر کوئی بڑی چیز سامنے نہیں آئی۔جیسے انتظار حسین کے ہاں ایک سطح ہے۔یا جیسے قیام پاکستان کے نتیجہ میں دونوں طرف ہجرت کی اچھی کہانیوں کی جوسطح ہے وہ یہاں خال خال ہی ملتی ہے۔ مغرب میں آنے کے نتیجہ میں ہم لوگ جدید علوم اور تیکنالوجی کے حوالے سے کچھ نیا پیش کر سکتے تھے۔اس معاملہ میں کوئی اہم تخلیق کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔ ایک افسانہ نگار نے کمپیوٹر کے حوالے سے بہت عمدہ کہانی لکھی لیکن بعد میں پتہ چلا وہ سرقہ تھا۔ چوری پکڑی گئی۔ خود میں نے ایٹمی جنگ کے بعد کی فضا کو موضوع بنا کر جو تین افسانے لکھے ہیں وہ میرے پاکستانی دور کی عطا ہیں جبکہ مغرب میں آکر تو میں اور بھی زیادہ دیسی ہو گیا ہوں۔ بہر حال میری نظر میں اردو ادب کے مرکزی دھارے سے ہٹ کر مغرب میں کوئی اہم اور قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہے۔
جواز جعفری:یورپ اور امریکہ میں تخلیق پانے والا اردو ادب برِصغیر کے ادب سے کس حد تک مختلف ہے؟
حیدر قریشی:کسی حد تک بھی نہیں۔یہاں کی عمومی صورتحال تو یہ ہے کہ لکھنے والوں کا زیادہ زور شاعری پر ہے۔اس میں بھی دولت کے بَل پر پاکستان اور انڈیا سے شعری مجموعے لکھوانے اورچھپوانے والے شعراءکی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پچاس سال کی عمر کے بعد یکایک کوئی شاعر نمودار ہوتا ہے اور دو برسوں میں چار شعری مجموعے چھپوا کر علامہ اقبال بن جاتا ہے۔یہاں کے بڑے مشاعروں میں بے وزن شعراءدھڑلے سے نہ صرف بے وزن کلام سناتے ہیں بلکہ داد بھی پاتے ہیں۔جو گنتی کے چند شاعر اور ادیب اچھا لکھ رہے ہیں وہ مغرب کے حوالے سے کوئی الگ تشخص نہیں رکھتے۔ان کی ساری پہچان اردو ادب کے مرکزی دھارے میں ہی بنتی ہے۔
جواز جعفری:آپ اپنے بارے میں مزید کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟
حیدر قریشی:ایک درخواست کروں گا کہ مجھے یورپ اور امریکہ میں مقیم شاعر اورادیب شمار کرنے کے بجائے اردو ادب کا شاعر اور ادیب سمجھیں۔پھر بے شک مجھے ادب کی آخری صف میں بٹھادیں ،بے شک صفوں سے پرے جوتوں میں بٹھا دیں۔یورپ اور امریکہ میں اتنے جعلی شاعر اور ادیب پیدا ہو گئے ہیں کہ اس حوالے سے اپنی پہچان سن کر یا پڑھ کر اب شرمندگی ہونے لگتی ہے۔میں جرمنی آنے سے پہلے کا شاعر اور ادیب ہوں۔یہاں آکر شاعر اور ادیب نہیں بنا۔
(جواز جعفری کا لیا ہوا تحریری انٹرویومطبوعہ مئی ۲۰۰۳ءکو اردوستان ڈاٹ کام و
سہ ماہی ”اسباق“ پونہ شمارہ :جنوری تا مارچ ۲۰۰۴ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”۵۱۔کیا اردو کی نئی بستیوں کا ادب ذکر کے قابل نہیں؟
٭ ادب کے مرکزی دھارے سے کٹ کر کسی کا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہے۔نئی بستیوں کے حوالے سے جانے جانا”کوٹہ سسٹم“کے تحت ادیب بننا ہے۔
۲۵۔کیا یورو،ڈالر کے بَل پر نام نہاد قلم کار خود کو منوا رہے ہیں؟
٭ان بیچاروں کو کیا مانا جانا ہے۔لیکن بہر حال یہ بد بختی کی بات ہے کہ غیرجینوئن اور جعلی لوگوں پر کتابیں لکھوانے اور چھپوانے کا کاروبار چل نکلا ہے۔ہندو پاک میں جو لوگ جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو پروجیکٹ کر رہے ہیں وہ درحقیقت ادب کے نام پر ”دھندہ “کر رہے ہیں۔
۳۵۔کیا اردو کی ان بستیوں میں جعلساز،نام نہاد قلم کاروں کا زور بڑھ رہا ہے؟
٭ یقیناً ایسا ہو رہا ہے۔پہلے غیر جینوئن شاعر اپنی بے وزن کتابیں فخر سے چھپوالیتے تھے ۔میں نے ان کے خلاف مہم چلائی تو ان کے حامیوں کا ایک جعلی ٹولہ ابھر کر سامنے آگیا۔یہ لوگ بے وزن شاعر بھی نہیں ہیں۔صرف نقد ادائیگی کرکے پورے شعری مجموعے مطبوعہ صورت میں حاصل کر لیتے ہیں۔ایسے جعلی شاعر جرمنی سے لے کر امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔آپ ان سب کو بے نقاب کریں میں خود ایک ایک کی نشاندہی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ان کے اوریجنل یا جعلی ہونے کو جانچنا بھی کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔۔۔۔“
(افتخار امام صدیقی کے ۳۶سوالات کے جواب۔مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی۔شمارہ نومبر ۲۰۰۴ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”عارف فرہاد :۔۔۔۔۔۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ جرمنی میں آ کر مجھے کوئی سنجیدہ ادیب آپ کے علاوہ نظر نہیں آیا بلکہ یوں کہیے کہ اگر شاعر ملا تو وہ وزن میں لکھنے والا نہیں ملا اس کی کیا وجہ ہے۔
حیدر قریشی : (ہنس کر) میں کیا کہہ سکتا ہوں بھئی، میں نے اس کی وجوہات پہلے بڑی وضاحت سے بیان کی تھیں اور بڑی گالیاں کھائی تھیں تو اگر آپ مجھے مزید گالیاں دلوانا چاہتے ہیں تو میں وجہ پھر کھول کر بتا دیتا ہوں۔
عارف فرہاد : جی ہم جاننا چاہیں گے۔
حیدر قریشی : بات یہ ہے کہ جو لوگ یہاں 20، 25 سال سے آئے ہوئے ہیں ، جوانی انہوں نے بھرپور گذار لی۔ مڈل ایجCrises میں آئے اب۔ یہاںWell Establish ہوگئے۔ روٹی، روزی کی فکر نہ رہی۔ بچوں کے معاملات میں بھی ایک حد تک آزاد ہوگئے تو اب انہیں یہ خیال آیا کہ نام کمانا چاہئے کسی طرح۔ پرانے زمانے میں لوگ پُل بنواتے تھے۔ کنواں بنواتے تھے۔ مدرسے بنواتے تھے۔ نام کمانے کیلئے یا ثواب کمانے کے لئے ۔اب ثواب کہیں پیچھے چلا گیا ہے اور نام کمانے کی یہ صورت رہ گئی ہے کہ شاعر بن جاﺅ۔ اس میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ سادہ سے لوگ ہیں جو جیسی بھی بے وزن شاعری کرتے ہیں ایسے ہی اپنے نام سے چھپوا لیتے ہیں اور اس پر ہی فخر کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو نسبتاً سیانے ہیں اور وہ پلے سے پیسہ خرچ کر کے کتابیں لکھواتے ہیں اور چھپواتے ہیں۔ تو شاعر تو یہاں کوئی بھی نہیں ہے جو میرے ایریئے میں ہیں اور مجھ سے ملے ہوئے لوگوں میں سے جو صاحبِ کتاب بنے ہوئے ہیں،ان میں سے کوئی ایک بھی شاعر نہیں ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ ساری کرپشن پھیلانے میں ہمارے ہندوستان اور پاکستان کے بعض اساتذہType شعراءجو ہیں وہ برابر کے مجرم ہیں۔“ (عارف فرہاد کا لیا ہوا انٹرویو۔مطبوعہ عکاس اسلام آباد شمارہ:اکتوبر ۲۰۰۵ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مغربی ممالک میں جہاں جہاں اردو کے چرچے ہیں،ان کے حوالے سے اردو زبان اور ادب کی بین الاقوامیت کا چرچا کیا جاتا ہے۔اگر تو واقعتاًاردو زبان اور ادب بین الاقوامی حیثیت اختیار کر رہے ہیں تو بڑی خوش بختی کی بات ہے۔لیکن اگر حقائق کچھ اور ہیں تو پھر خوش فہمیوں پر کچھ کہنا بے کار ہے۔
اس موضوع سے متعلق چند بنیادی سوالات کے جواب تلاش کرنے پر صورت حال بہتر طور پر واضح ہو سکے گی۔
کیا مغربی ممالک میں مقیم اور اردو سے محبت کرنے والوںکی نئی نسلیں اردو سے اس حد تک منسلک ہیں کہ اردو لکھنا اور پڑھنا جانتی ہیں؟اس سلسلے میں جو بھی قابلِ قدر کاوشیں ہوئی ہیں ان کا اب تک کیا نتیجہ نکلا ہے؟اعداد و شمار کی زبان میں وضاحت کی جا سکتی ہے۔
کیا مغربی ممالک میں مقیم اردو والوں کی نئی نسل میں سے وہاں رہتے ہوئے اردو شعر و ادب سے کوئی تخلیقی نوعیت کی وابستگی سامنے آئی ہے؟ یعنی کیا مغربی ممالک میں نئی نسل میں سے کوئی شاعر اور ادیب سامنے آیا ہے؟
اگر ان دونوں بنیادی سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو اردو کی بین الاقوامی حیثیت کے دعووں کے باوجود صورتحال تشویشناک دکھائی دیتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور انڈیا سے مغربی ممالک میں آبسنے والے شاعر اور ادیب ہی یہاں ادبی سرگرمیوں کا سبب ہیں۔اس میں مزید اضافہ شاعروں کی اس بڑی کھیپ سے ہو رہا ہے جو شاعر نہ ہو کر بھی نقد ادائیگی کر کے لکھے لکھائے اور چھپے چھپائے شعری مجموعے حاصل کرکے شاعر بن جاتے ہیں۔
اگراس نوعیت کے شعراءکی تعداد میں اضافہ ہونا اور پاکستان اور انڈیا میں ان سے اپنے مفادات وابستہ رکھنے والی ”شاعر گر“ادبی شخصیات کے مفادات کا پورا ہونا اردو ادب کا فروغ ہے تو پھر بے شک یہاں اردو ادب فروغ پا رہا ہے وگرنہ مغربی ممالک میں اردو کے سلسلے میں ہونے والی زیادہ تر سرگرمیاں محض ثقافتی قسم کے میلے ٹھیلے جیسی ہیں۔
مغربی ممالک میں مقیم وہ شاعر اور ادیب جو بیرون ملک آنے سے پہلے سے اپنی ادبی شناخت رکھتے تھے، ان سے ہٹ کر باقی شاعروں اور ادیبوں کی عمومی صورتحال دیکھی جائے تواس نام نہاد عالمی اردوادب سے” شاہ عالمی لاہور“ کااردو ادب کہیں زیادہ معیاری دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے متعدددوسرے شعبہ ہائے حیات کی طرح یہاں بھی اب نمبر دو قسم کے لوگ غلبہ پانے لگے ہیں۔کتنا اچھا ہو کہ اردو اور ادب سے سنجیدہ وابستگی رکھنے والے شعراءو ادباءاس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر بات کر سکیں۔“
(مطبوعہ اداریہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ نمبر ۷،جولائی تا دسمبر ۲۰۰۶ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے ان چند اقتباسات سے میرے موقف کے بارے میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو کی ان نئی بستیوں کی حقیقت کیا ہے۔اقتباسات کے سلسلہ میں آخر میں مثبت رنگ کا ایک اقتباس بھی دینا ضروری سمجھتا ہوں۔لیکن یہ اتنا ہی مثبت ہے جتنا مجھے سمجھ میں آتا ہے۔
” برصغیر سے باہر کی تمام پاکٹس میں جو لوگ ا ہم ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں،ادب کے تئیں ان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔یہ سلسلہ ماریشس سے لے کر دبئی تک اور لندن سے لے کر نیویارک تک پھیلا ہوا ہے۔اسی طرح ان ساری پاکٹس میں جہاں جہاں سے اردو اخبارات و رسائل نکل رہے ہیں وہ اردو کی خدمت کی ایک صورت ہے۔اخبارات رسائل،ادبی تقریبات یہ سب اردو کی چہل پہل اور رونق کا سبب ہیں۔لیکن اگر خالصتاً ادبی سطح پر بات کی جائے تو مغربی ممالک میں تخلیقی سطح پر کوئی ایسا بڑا بریک تھرو دیکھنے میں نہیں آیا جس سے کہا جا سکے کہ اردو کے ادبی سرمایہ میں کوئی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔گیان چند جین،شان الحق حقی اور اسی معیار کے دوسرے ادباءپاکستان اور ہندوستان میں ہی اپنے میدانوں میں معتبر کام کر چکے ہیں۔مغربی ممالک میں قیام پذیر ہونا ان کی شناخت نہیں ہے۔وہ شاعر اور ادیب جو مغربی ممالک میں طویل قیام کی پہچان رکھتے ہیں اور دلجمعی کے ساتھ ادبی خدمت میں مشغول ہیں،ان سب کی ادبی پہچان ادب کے مرکزی دھارے کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔مغربی ممالک کی تخصیص کے ساتھ ان کی انفرادیت ادبی طور پر سامنے نہیں آتی۔مثلاً شاعری میں ابھی تک روایتی اور ترقی پسند انداز کا ملا جلا رنگ رائج ہے۔البتہ کبھی کبھی یادِ وطن کے حوالے سے بعض اچھے اشعار ضرور سامنے آجاتے ہیں ۔
یہاں کے افسانہ نگاروں کا ایک اہم موضوع ہجرت یا ترکِ وطن ہے۔اس موضوع پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔لیکن ہجرت کے موضوع پر ۱۹۴۷ءکے بعد پاکستان اور ہندوستان میں جس پائے کی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں،مغرب کے ہمارے اردو افسانہ نگار اس سطح کو مس بھی نہیں کر سکے۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ۱۹۴۷ءکی ہجرت نے دلوں میں گہرے گھاؤپیدا کئے تھے۔۔۔۔سب دکھی تھے۔جبکہ مغرب میں آبسنے والے وطن سے زیادہ آرام کی دنیا میں آتے ہیں ۔یہاں کا کھلا ماحول انہیں شاید ان کیفیات سے آشنا ہونے ہی نہیں دیتا جو تخلیقی کرب کا لازمہ ہے۔مغربی چکا چوند میں جنس نگاری کی طرف رغبت فطری بات ہے۔لیکن اس میں بھی خرابی یہ ہوئی کہ منٹو ، عصمت چغتائی اور ممتاز مفتی اس حوالے سے جتنا کچھ اردو کو دے گئے ہیں،اس کے بعد مغرب کے اردو افسانہ نگار جنسی لذت تو کشید کر لیتے ہیں لیکن فن کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو ایک معیار کے طور پر پہلے سے اردو میں موجود ہے۔ افسانے کی دنیا میں جہاں ہمیں اپنے ثقافتی تصادم کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جہاں مختلف ثقافتی المیے سامنے آتے ہیں وہاں چند اچھی کہانیوںنے تبدیلی کا احساس دلایا ہے۔مثلاً سعید انجم کا” جھوٹ سچ“ ۔۔ ہرچرن چاولہ کا”گھوڑے کا کرب“ اور قیصر تمکین کا”اندھیری روشنی “۔۔۔۔۔تاہم ثقافتی تصادم کی عام کہانیاں بھی اخباری رنگ میں زیادہ بیان کی گئی ہیں یا پھر خواتین کے زیب النساءطرز میں لکھی گئی ہیں۔ مغرب میں شاعروں اور ادیبوں نے مغربی سائنسی ترقیات اور جدید تر صورتحال کو تاحال گہری اور تخلیق کارکی نظر سے نہیں دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات سے ان کے افسانے خالی ہیں۔اس کے باوجود وہ سارے اوریجنل تخلیق کار داد اور تحسین کے مستحق ہیں جو پردیس میں بیٹھ کر اپنے دیس کی زبان کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی محبت میں اپنی بساط کے مطابق تخلیقی کام بھی کئے جا رہے ہیں۔ان سب کا جذبہ قابلِ قدر ہے۔“
(مطبوعہ ماہنامہ اخبارِاردو اسلام آباد۔شمارہ اکتوبر ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ روزنامہ عکاس کولکاتا۔یورپ میں اردوخصوصی ایڈیشن
مورخہ ۲۵مئی ۲۰۰۸