عبدالرب استاد نوجوان مصنف ہیں،گلبرگہ یونیورسٹی میں اردو کے استاد ہیں۔اگرچہ جزوقتی طور پر شاعری بھی کرتے ہیں لیکن ان کی بنیادی دلچسپی تحقیق و تنقید سے ہے۔اس سلسلہ میں ان کے مضامین ادبی رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔”تاثر اور تنقید“ا ن کے مضامین کا مجموعہ ہے۔اس سے بحیثیت تنقید نگار ان کی شناخت ہو سکے گی۔”تاثر اور تنقید“نام سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ تاثراور تنقید دونوں کو یکجا رکھتے ہیں،بلکہ دونوں کی یکجائی سے ہی متوازن تنقید کا بہتر تاثر سامنے آتا ہے۔
کتاب میں گیارہ مضامین شامل ہیں جو ان کی دلچسپی کے متنوع ادبی موضوعات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مضامین کے عناوین سے ان موضوعات کے بارے میں اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
۱۔”تحریکِ آزادی میں اردو زبان و ادب کا حصہ“،
۲۔”مولانا حالی کی ادبی خدمات“،
۳۔”پریم چند اور خطبۂصدارت“،
۴۔”محئی دکن۔۔ڈاکٹر زور“ ،
۵۔”دکن کا باکمال شاعر سلیمان خطیب“،
۶۔”اردو ماہیا۔۔۔۔“،
۷۔”کرناٹک میں اردو غزل“،
۸۔”حیدر قریشی کی انشائیہ نگاری“،
۹۔”افسانہ زرد کتا:ایک تجزیہ“،
۱۰۔”افسانہ کہانی در کہانی کا تجزیہ“،
۱۱۔”دیکھیں کیا گزرے ہے۔۔“۔
آخری مضمون حمید سہر وردی کی نظم”صفر“کے تجزیہ پر مبنی ہے۔شروع میں کتاب کا پیش لفظ انہوں نے خود لکھا ہے اور آخر میں تجزیہ کردہ تین تخلیقات انتظارحسین کا افسانہ”زرد کتا“،حمید سہروردی کا افسانہ ”کہانی در کہانی“ اوران کی نظم”صفر“کو بھی شامل کر دیا ہے،تاکہ ان کا تجزیہ پڑھنے والے اصل تخلیقات کو بھی بعدمیں پڑھ سکیں اور اپنے طور پر کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہیں تو پہنچ سکیں۔
عبدالرب استاد کے موضوعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادب سے متعلق مختلف شعبوں میں یکساں دلچسپی رکھتے ہیں اور کسی ایک شعبہ کے ہو کر نہیں رہ گئے۔ان کی تنقیدی سوجھ بوجھ انہیں اپنے مقامی لیکن نامور ادبی لوگوں سے لے کر دور دراز کے ادیبوں تک پہنچاتی ہے۔مولانا حالی سے لے کر محٔی الدین زور تک اور پریم چند سے سلیمان خطیب تک وہ اپنے ماحول اور ارد گرد کے ادبی ماضی سے بھی با خبر رہتے ہیں اور جدید رویوںسے جنم لیتی ہوئی تخلیقات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔نئی اصناف ہوں یا ادب کے نئے مسائل وہ ممکنہ حد تک ان سے خود کوبھی آگاہ رکھتے ہیں اور اپنے قارئین کو بھی اس میں شریک رکھتے ہیں۔عبدالرب استاد کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بطور نقاد فیصلہ سنانے کی بجائے ادب پارے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،پھر جو کچھ جان پاتے ہیں،پیش کر دیتے ہیں۔گویا سمجھنے کے بعد اپنے قاری کو سمجھانے نہیں بیٹھ جاتے۔یونیورسٹی میں اردو کا استاد ہوتے ہوئے ان کے لیے ایسا کرنے کا خاصا خطرہ موجود تھا لیکن ان کا کمال ہے کہ انہوں نے اس نوعیت کی ”استادی“جتانے سے گریز کیا ہے۔
”تاثر اور تنقید“کا اس لحاظ سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے کہ اس میں عبدالرب استاد کی تنقیدی بصیرت کے بہترین امکانات مخفی ہیں۔ان کے اگلے تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں وہ امکانات تدریجاً نمایاں ہوتے جائیں گے اور یقین ہے کہ اردو تنقید میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گے۔
سو میں اس مجموعہ کا تہہ دل سے استقبال کرتا ہوں!
(مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۔۸اکتوبر۲۰۱۰ء
جدید ادب شمارہ ۱۶۔جنوری ۲۰۱۰ء)