گزشتہ کچھ عرصہ سے پوپ کہانی کا نام سننے میں آرہا تھا۔ادھراُدھر ادبی رسائل میںعام طور پر افسانچہ طرز کی کہانیاں چٹکلے کے انداز میں دکھائی دے رہی تھیں۔جوگندر پال کے افسانچے پڑھنے کے بعد کسی چٹکلا نما چیز کی طرف دھیان دینے کا موڈ ہی نہ بنا۔لیکن حال ہی میں مقصود الہٰی شیخ کے ساتھ ایک طویل وقفہ کے بعد رابطہ ہوا تو انہوں نے پوپ کہانی کی جانب توجہ دلائی۔نہ صرف توجہ دلائی بلکہ اپنی کتاب”پوپ کہانیاں“بھی عنایت کر دی۔عجیب اتفاق ہے کہ عین انہیں دنوں میں جب ہماری مراسلت جاری تھی مجھے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی حال ہی میں شائع ہوئی شعری کلیات”خوشبو،گلاب،کانٹے“کا تحفہ ملا۔اس میں رضیہ اسماعیل کی کتابوں کی لسٹ دیکھ رہا تھا تو سال ۲۰۱۴ءمیں ان کی کتاب”کہانی بول پڑتی ہے“(پوپ کہانیاں)،کا نام دیکھ کر چونک گیا۔ان سے رابطہ کیا کہ مجھے یہ کتاب درکار ہے۔پھر ان کے ساتھ اس موضوع پر تھوڑی سی گفتگو بھی ہوئی۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جو سوالات میرے لیے الجھن کا باعث بنے ہوئے ہیں ،وہ کہیں زیادہ رضیہ اسماعیل کے لیے بھی الجھن کا باعث بنے ہیں۔اور انہوں نے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے پوپ کہانی کے مرکز امریکہ کے انگریزی پوپ کہانی نگاروں سے بھی رابطے کیے تاکہ اگر یہ کوئی نئی صنف ہے تو اس کے خدو خال دوسروں سے الگ دیکھے جا سکیں۔ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے بتایا کہ ان کی کتاب”کہانی بول پڑتی ہے“پبلشر کے پاس ہے اور پروف ریڈنگ کی وجہ سے اشاعت میں دو تین ماہ کی تاخیر ہو رہی ہے۔میری درخواست پر انہوں نے مجھے اس کتاب کی ان پیج فائل عنایت کر دی۔یوں مجھے پوپ کہانی کے مسئلہ کو برطانیہ کے دو تخلیق کاروں کے کام کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا تھوڑا سا موقعہ مل گیا۔
مقصود الہٰی شیخ کے ساتھ میری جو مراسلت ہوئی،اس میں میری طرف سے ایک دو بنیادی سوال اٹھائے گئے تھے۔مراسلت کے نتیجہ میں بھی اور کتاب ”پوپ کہانیاں“کو پڑھنے کے بعد بھی مجھے نہ صرف ان سوالات کے جواب کی ابھی تک تلاش ہے بلکہ ان کے ساتھ مزید چند سوالات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔
۱۔پوپ کہانی کے بنیادی خدو خال کیا ہیں؟
۲۔جس طرح افسانچہ،افسانہ،ناولٹ اور ناول کی پہچان بالکل سامنے کی بات اور قابلِ فہم ہے،اسی طرح پوپ کہانی کو افسانچہ یا افسانہ سے کس طرح الگ پہچانا جا سکتا ہے ؟کسی مابہ الامتیاز اور کسی تخصیص کے بغیر پوپ کہانی کو افسانچہ یا افسانے سے الگ کرکے کیونکر دیکھا جا سکتا ہے؟
مقصود الہٰی شیخ کی پوپ کہانیوں میں بعض افسانچوں کی طرح ہیں،بعض نثری نظم کے انداز میں،بعض میں خلیل جبران جیسا رنگ در آیا ہے تو بعض ڈرامہ کے طور پربیان ہوئی ہیں۔اس ہئیتی منظر نامہ سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جاتا ہے۔
چونکہ پوپ کا لفظ پاپولر میوزک والے پوپ سے لیا گیا ہے۔اس پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے تو ایک اور نکتہ اٹھادیا ہے کہ اگر یہ تعلق کسی موسیقیت کی بنیاد پر ہے تو پھر اردو میں پوپ کہانی کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ان کے بقول: ”اگر پوپ کہانی لکھتے وقت اسے کسی نہ کسی راگ یا راگنی کے تابع کر دیا جائے یا اس سے منسلک کر دیا جائے تو شاید ہمیں پوپ کہانی کی ہیئت ،تکنیک یا فارمیٹ کو مشرق میں ڈویلپ کرنے میں، اس کی الگ پہچان بنانے میں کوئی کامیابی ہو سکے۔ “۔
لیکن اگر یہ لفظ محض پاپولر کہلانے کی خواہش کا اظہار ہے تو بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔کیونکہ پریم چند سے لے کر منٹو تک ہمارے ابتدائی اور اہم لکھنے والوں کی کہانیاں تواردو میں مقبولیت کے سات آسمان چھو چکی ہیں۔اور آج بھی کہانی پڑھنے والوں میں مقبول ہیں۔ان سے زیادہ پاپولر کہانیاں کس نے لکھی ہیں!
پوپ کہانی کے بنیادی خدو خال کو واضح کیے بغیر اور افسانہ و افسانچہ سے اسے الگ دکھائے بغیر اس کی شناخت کا مسئلہ پہلے قدم پر ہی رکا رہے گا۔جہاں تک دوسرے بیان کردہ اوصاف کا تعلق ہے۔مثلاً مقصود الہٰی شیخ کے بقول:”پوپ کہانی،افسانہ،افسانچہ یا پارۂلطیف سے یکسر جدا ہے۔کچھ ہے تو اپنے گوناںگوں موضوعات اچانک آمد پر قلمبند کرنے کا نام ہے۔جب قلم سے جڑا حساس دل کسی واردات کو تحریک و فیضان ملنے یا انسپائر ہونے پرسینے میں بند رکھنے کی بجائے عام فہم لفظوں میں سپردِ قرطاس کردے تو لفظوں کا یہی روپ پوپ کہانی ہے“۔۔۔
ان اوصاف کی تو تخلیقی ادب کی تمام اصناف میں ایک جیسی اہمیت اور حیثیت ہے۔اچانک آمد پر کچھ لکھنا یاکسی واردات کو تحریک ملنے پر لکھ دینا صرف فکشن میں نہیں دوسری تمام تخلیقی اصناف میں بھی ہوتا رہتا ہے۔مقصود الہٰی شیخ نے ”عام فہم لفظوں“ میں لکھنے کا ذکر بھی کیا ہے۔انہوں نے خود زندگی بھر جو لکھا ہے وہ سارا عام فہم ہی ہے۔سو یہ ساری لفظیات ادب کی جملہ اصناف پر عمومی طور پر لاگو کی جا سکتی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ مقصود الہٰی شیخ بعض مخالفین کی مخالفت کے باعث اس موضوع پر لکھتے ہوئے تھوڑا سا غصہ میں آجاتے ہیں۔تاہم میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایک مضمون ایسا ضرور لکھیں گے جس میں اپنے مخالفین کو یکسر نظر انداز کرکے ان لوگوں کے لیے پوپ کہانی کے خدو خال کو بیان کریں گے جو نیک نیتی کے ساتھ پوپ کہانی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ پوپ کہانی ،افسانہ اور افسانچہ سے کیونکر مختلف اور الگ ہے۔اور اس کی کون سی خصوصیات ہیں جو ادب کی دوسری اصناف سے مختلف ہیں۔یہ اعتراض نہیں،سوالات ہیں اور ان کا مقصدپوپ کہانی کی شناخت کو واضح طور پر سمجھنا ہے۔کیونکہ عام فہم لفظوں میں لکھی جانے والی صنف کی شناخت بھی عام فہم قابلِ فہم ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل برطانیہ کے لکھنے والوں میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کا نتیجہ تو ان کے پانچ شعری مجموعوں کی کلیات کی صورت میں سامنے آچکا ،جس کا ذکر شروع میں کر چکا ہوں۔نثر میں ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ”چاند میں چڑیلیں“سال ۲۰۰۰ءمیں چھپ گیا تھا۔ان کے لکھے ہوئے متفرق تاثراتی مضامین ادھر اُدھر مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔ اور اب پوپ کہانی کی جستجو میں انہوں نے اپنے افسانوں کا مجموعہ”کہانی بول پڑتی ہے“تیار کر لیا ہے۔اپنے تحریر کردہ پیش لفظ ”پوپ میوزک سے پوپ کہانی تک“ میںانہوں نے پوپ کہانی کے مسئلہ پر کسی جذباتیت کے بغیر اس کے خدو خال کو سمجھنے کی کاوش کی ہے۔ امریکہ میں پوپ کہانی کو کیسے سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے؟اس کا بیان بھی اس پیش لفظ میں مل جاتا ہے۔”پوپ کہانی کیوں؟“اور ”پوپ کہانی کیا ہے؟“ کے ذیلی عناوین کے تحت انہوں نے مغربی تناظر میں پوپ کہانی کا مسئلہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔پوپ کہانی کیوں؟ میں تو جدیدتر میڈیائی چیلنجز کے سامنے افسانے کی بے بضاعتی کا ذکر ہے۔ لوگ ناول پڑھ لیتے ہیں لیکن افسانہ کی طرف دھیان نہیں دیتے۔(میڈیائی یلغار ہی صرف مسئلہ ہے تو پھر ناول کیوں پڑھا جارہا ہے؟)،شاعری تو بہت پہلے سے نظر انداز کی جا چکی ہے،وغیرہ۔جدید تر میڈیائی یلغار بلاشبہ ایک اہم مسئلہ ہے ۔اس کے سامنے صرف افسانہ نہیں،پورا ادب ہی نظر انداز ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اس چیلنج سے عہدہ براءہونے کے لیے ”پوپ کہانی “نام رکھ لینے سے لوگ اس طرف راغب نہیں ہوں گے۔اس کے لیے ادب کی مجموعی اور عالمی صورت حال کے پس منظر میں ہی سب کو اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ موضوع بجائے خود ایک الگ مکالمہ اور الگ بحث کاتقاضاکرتاہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے عام کہانی کا نام پوپ کہانی رکھ دینامناسب نہیں۔رضیہ اسماعیل نے مشرقی موسیقی کے سامنے پوپ کہانی کو ”لولی پوپ“قرار دیا ہے۔میرا خیال ہے کہ جدید تر میڈیائی چیلنجز کے سامنے پوپ کہانی کو پیش کرنا بھی ”لولی پاپ“دینے کے مترادف ہے۔
”پوپ کہانی کیا ہے؟“ کے تحت مغربی دنیا کے پوپ کہانی والے اسے جن اوصاف کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ سب عمومی اوصاف ہیں،جنہیں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ادب کی جملہ اصناف میں دیکھا جا سکتا ہے۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ ادب کو درپیش نئے چیلنجزکے سامنے بعض لکھنے والے سراسیمگی کی کیفیت میں ہیں۔ایک پاپ اسٹار کی مقبولیت کے سامنے اپنی انتہائی عدم مقبولیت سے دل برداشتہ ہو کر بعض ادیبوں نے جیسے پوپ کہانی کی راہ اپنا لی ہے۔صرف کہانی کیوں؟آپ ادب کی ساری اصناف کو بھی پوپ کے سابقہ کے ساتھ جوڑ لیجیے۔لیکن اس سے مقبولیت تو ملنے سے رہی۔ادب کے دیار میں قبولیت اور مقبولیت دونوں کی اپنی اپنی جگہ ہے۔کسی ادیب کو اچھا لکھنے کی توفیق مل جانا،قبولیت کے زمرہ میں آتا ہے اور ایک اچھے ادیب کے لیے توفیق مل جانا ہی بڑی بات ہے۔مقبولیت ایک دوسرا موضوع ہے۔سر، دست اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ قناعت پسند ادیب قبولیت پر ہی خوش رہتے ہیں۔آگے جو ملے ،نہ ملے،توفیق دینے والے کی مرضی۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے امریکہ کے پوپ کہانی لکھنے والے ایک مصنف کنگ وینکلس سے رابطہ کیا اور ان کی دومنتخب پوپ کہانیوں کو اپنے مجموعہ میں شامل کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ ”مشین“ اور”سرخ دروازہ“کے نام سے ترجمہ کی گئی ان دونوں کہانیوں کا ترجمہ اسماعیل اعظم نے بہت عمدگی سے کیا ہے۔ان دونوں کہانیوں کو پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ یہ دونوںکہانیاں نیم علامتی پیرائے میں لکھی ہوئی ہیں۔اور وہ جو پوپ کہانی کا مطالبہ تھا کہ کہانی عام فہم لفظوں میں ہو،وہ یہاں پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔کہانی ”مشین“سے مجھے ایسالگا کہ کنگ وینکلس نئے لکھنے والے ہیں۔ان میں صلاحیت ہے لیکن ابھی تک ادب کی بڑی سطح پر ان کا اعتراف نہیں کیا گیا، یا مناسب پذیرائی نہیں کی گئی۔چنانچہ وہ بڑے لکھنے والوں اوراہم نقادوں کوکہانی میں تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔”سُرخ دروازہ“ مختلف رنگوں کی علامات کے سہارے کہانی کو دلچسپ اختتام تک پہنچاتا ہے۔دونوں کہانیوں سے ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ امریکہ میں آزادیٔاظہار کے باوجود بہت کچھ کہنے میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔چنانچہ کنگ وینکلس نے علامات کا سہارا لے کر اپنے مخصوص نیم علامتی پیرائے میں اپنے دل کی بات کہہ دینے کی کوشش کی ہے۔”مشین “میں تو نیم علامتی پیرایہ نیم سے کچھ زیادہ کھلتا دکھائی دیا تو انہیں آخر میں یہ اضافی نوٹ دینا پڑ گیا:” اس کہانی میں جس سوسائٹی کی منظرکشی کی گئی ہے۔ امریکی معاشرے سے اس کی کوئی مماثلت نہیں ہے“۔
کنگ وینکلس کی دو کہانیوں کے بعد ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنی بارہ کہانیاں شامل کی ہیں۔ان کی پہلی کہانی”تھرڈ ورلڈگرل“کے اختتام تک پہنچا تو ایسا لگا کہ سچ مچ کوئی گونگی کہانی بول پڑی ہے۔ ”ائر فریشنر“ صرف برطانیہ ہی کی نہیں اب تو یورپ بھر کے پاکستانیوں کی مجموعی فضا کی ترجمانی کر رہا ہے۔اور” آنرکلنگ“پڑھتے ہوئے ایسے لگا کہ کہانی صرف بول نہیں پڑتی بلکہ بعض اوقات چلّاتی بھی ہے ۔قبل از اسلام کے مکہ میںزندہ گاڑ دی جانے والی بیٹیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی جیسے اکیسویں صدی کی انوکھی آنر کلنگ میں شامل ہو گئی ہیں۔تب اس ظلم کو غیرت کے جاہلانہ تصور پر تحفظ حاصل تھا اور اب اسے خود مذہب کے نام پر تحفظ حاصل ہے۔”تھرڈ ڈائمنشن“برطانیہ میں اسائلم لینے کی سہولتوں سے سچ جھوٹ بولنے کی کسی حد تک چلے جانے والوں کی دلچسپ کہانی ہے۔باقی ساری کہانیاں بھی اپنی اپنی جگہ دلچسپ ہیں۔”ریڈیو کی موت“کہانی کو میں نے یہ سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تھا کہ سیٹلائٹ اور ٹیلی ویژن چینلز کی نت نئی کرشمہ سازیوں کے سامنے ریڈیوکے دَم توڑنے کی کہانی ہو گی۔لیکن یہ تو ایک بھلی مانس سی کہانی نکلی۔لیکن اپنی بھل منسئی کے باوجود کہانی اچھی ہے۔”کہانی بول پڑتی ہے“میں شامل ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی بارہ کہانیاں ان کے اندر کی افسانہ نگار کا پتہ دیتی ہیں۔یہ کہانیاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی مختلف النوع کہانیاں ہیں۔خامیاں اور خوبیاں،دوسروں کی ہوں یا اپنوں کی،ان سب کو ایک توازن کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے۔کہیں کہیں تبلیغی رنگ غالب ہونے لگتا ہے لیکن صرف ایک دو کہانیوں میں ایسا ہوتا ہے۔ بیشتر کہانیوں کا اختتام جیسے ہلکا سا ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے،لیکن یہ عمل کسی نوعیت کا ابہام پیدا نہیں کرتا،بلکہ قاری خود کہانی میں شریک ہو کراسے مکمل کر لیتا ہے،کیونکہ اختتامی ادھوراپن ایک واضح اشارا چھوڑ جاتا ہے۔اس سے کہانی کا سادہ بیانیہ ایک رنگ میں علامتی سابن جاتا ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی یہ کہانیاں اردو افسانے کے سفرکا تسلسل ہیں۔افسانہ غیر مقبول ہے یا سارا ادب ہی غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے؟وہ مقبولیت کے کسی پھیر میں نہیں پڑیں۔ان کے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ انہیں یہ کہانیاں تخلیق کرنے کی توفیق مل گئی۔قبولیت نصیب ہو گئی۔ توفیق ملنے کی اس قبولیت پر میری طرف سے دلی مبارک باد!
(ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے مجموعہ کہانی بول پڑتی ہے میں شامل۔مطبوعہ ۲۰۱۴ء)