احمد حسین مجاہدہزارہ میں اردوکے اہم شاعرہیں۔۸اکتوبر ۲۰۰۵ءکوہزارہ،کشمیر اور دوسرے ملحقہ علاقہ جات میں جو قیامت خیز زلزلہ آیا تھا،وہ اس کے چشم دیدگواہ تھے۔ان کا اپنا شہر بالاکوٹ اس زلزلہ میں صفحۂہستی سے مٹ گیا۔ اپنی اس گواہی کو انہوں نے ”صفحۂخاک“ کے نام سے کتابی صورت میں محفوظ کر دیا ہے۔ابتدا میںہزارہ کی قدیم تاریخ کے کچھ اشارے دئیے گئے ہیں۔پھر سکھوں کے دورِ حکومت اور سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کے سکھوں کے خلاف معرکوں کا ذکر ہے۔قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے زمانے کے بالا کوٹ کی بھی کچھ تصویر کشی کی گئی ہے۔بالاکوٹ کی وجۂتسمیہ سے لے کر وہاں کی معروف مساجد،ہسپتالوں اور ہائی اسکول کا ذکر کیا گیا ہے ۔یہ عمارات اس زلزلہ میں بے نشان ہو گئیں۔اس زلزلہ کی نذر ہو جانے والے اپنے عزیزوں،دوستوں اور جاننے والوں کا ذکر کرتے ہوئے احمد حسین مجاہد کے جذبات نے نثر میں ایک خاص قسم کی سوگوار شعریت بھر دی ہے۔یہی صورتحال بالا کوٹ کے گلی کوچوں اور دیکھی بھالی عمارتوں کے ذکر میں دکھائی دیتی ہے۔یہاں جذباتیت تو ہے لیکن پوری حقیقت اور واقعیت کے ساتھ۔
بالاکوٹ کی تباہی کے باب میں انہوں نے اپنے مشاہدات کے ساتھ دوسرے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس سے بھی استفادہ کیا ہے اور ان سب کے پورے حوالے درج کیے ہیں۔زلزلہ کی توجیہات کے تحت انہوں نے مذہبی علماءکے موقف کاتھوڑا سا ذکر کیا ہے،جبکہ ارضیاتی سائنس کے علماءکے موقف کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مذہبی علماءکے طرزِ استدلال کے تحت خود انہیں ملزم کرنا مقصود ہوتا تو پاکستان کے تب کے ایک دن پہلے کے سانحہ اور بین قرآنی آیات کی روشنی میںبڑی آسانی سے ایسا کیا جا سکتا تھا۔ایسی صورت میں عوام کو تنبیہ کرنے والے خود مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے دکھائی دیتے۔ احمد حسین مجاہد کا ذہن اس طرف نہیں گیا یا انہوں نے دانستہ اس سے گریز کیا وہی بہتر جانتے ہیں۔ویسے ذاتی طور میں بھی زلزلہ کے ارضیاتی حوالوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں،تاہم کبھی کبھی مذہبی حوالے بھی معتبر لگتے ہیں ،خصوصاً جب مذہبی لوگ ان کی زد میں آرہے ہوں۔ وہ جو دوسروں کو مذہبی حوالے دے کر ڈرانے دھمکانے میں لگے رہتے ہیں جب خود ویسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کی تاویلیںعجیب ہو جاتی ہیں۔
صفحہ نمبر ۱۲۲پر زلزلوں کی مختصر تاریخ کا گوشوارہ دیا گیا ہے۔۲۴جون ۱۸۵۲ء میں بلوچستان کے زلزلہ کے ذکرکے بعد ۲۰اکتوبر ۱۹۲۹ءکے زلزلوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ۱۸۵۲ءسے ۱۹۲۹ءکے درمیان بعض شدید قسم کے زلزلے برصغیر پاک وہند میں آئے تھے۔ان میں ایک زلزلہ تو ایسا بھی تھا جو گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال کا سب سے بڑا زلزلہ تھا۔زلزلہ کی مختصر تاریخ میںاس قسم کی اکا دکا خامیاں ہلکا سا کھٹکتی ہیں ۔
زلزلہ کے بعد جن ملکی و غیر ملکی تنظیموں اور اداروں نے بلا امتیاز مذہب و ملت انسانیت کی گرانقدر خدمت کی،ان سب کا احمد حسین مجاہد نے کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ نام بنام ذکر کیا ہے۔زلزلہ کے معاً بعد بعض انسانیت سوز جرائم کی تکلیف دہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں،جن میں بعض بچیوں کو اغوا کرنے اور کوٹھوں تک پہنچانے کی ہولناک وارداتیں بھی شامل تھیں۔بعض سیاسی افراد امدادی سامان کے ٹرک اپنے ڈیروں پر لے گئے تھے۔احمد حسین مجاہد نے ایسے المناک منفی رویوں کو نظر انداز کیا ہے اورصرف قدرتی آفت کا احوال اور اس پر مثبت امدادی جدو جہد ہی کو بیان کیا ہے۔ احمد حسین مجاہد نے اس کتاب میں متعدد تصویریں بھی شامل کی ہیں اور اپنی نثر کے ساتھ متعدد بر محل اشعار اور نظمیں بھی شامل کی ہیں۔تاہم ان کا ایک شعر بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ۹۹۔۱۹۹۸ءمیں ان کی ایک غزل شائع ہوئی تھی،جس میں یہ شعر شامل تھا
زباں سمجھتا ہوں میں ٹوٹتے ستاروں کی
یہ شہر مجھ کو اجڑتا دکھائی دیتا ہے
انہوں نے اسے بجا طور پر اپنی شاعرانہ پیش گوئی لکھا ہے۔میرا خیال ہے کہ جینوئن شاعروں کا شعری وجدان، الہام سے کچھ ملتا جلتا ہو جاتا ہے۔اس بات کو ”شاعری جزوِ پیغمبری است“کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔سو کسی بھی جینوئن شاعربلکہ کسی بھی جینوئن تخلیق کار کی تخلیق (نظم و نثردونوں)میں اس طرح کی وجدانی پیش گوئیاں موجود ہو سکتی ہیں۔اس کا تعلق کسی قسم کی ولایت سے نہیں بس یہ تخلیق کار کے وجدان کی روشنی کا ایک جلوہ ہے۔
مجموعی طورپر احمدحسین مجاہد نے” صفحۂخاک“ کو زبان و بیان کے لحاظ سے ایک قابلِ قدر ادبی اور بالا کوٹ کے حوالے سے دستاویزی حیثیت دے دی ہے۔بالاکوٹ جو صفحۂہستی سے مٹ چکا ہے احمد حسین مجاہدکے صفحۂخاک میں اپنی پوری تاریخ اور پوری زندگی کے ساتھ آباد ہے۔ ایک معروف امدادی تنظیمS.R.S.P. نے اس کتاب کی اشاعت کا سامان کیا ہے۔دکھوں کی داستان کو اتنا دیدہ زیب شائع کیا گیا ہے کہ آنکھوں میں نمی کے ساتھ بالا کوٹ کے باسیوںکے اچھے مستقبل کی امید سے خوشی کی چمک بھی آجاتی ہے۔مجھے یہ کتاب ۷اکتوبر ۲۰۰۸ءکو موصول ہوئی،اورمیں نے آج ۸اکتوبر۲۰۰۸ءکو اس کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اپنی یہ رائے تحریر کی ہے۔آج مذکورہ زلزلہ کو آئے ہوئے تین سال پورے ہو چکے ہیں۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ:۱۳۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۹ء)