بامِ بقا“ کی اشاعت کے بعد ”ترے نین کنول“ طاہر عدیم کا دوسرا مجموعۂکلام ہے۔اس دوران پہلے مجموعہ کا دوسرا ورشن”تم کبھی بے وفانہ کہنا“کے نام سے بھی شائع ہوا۔دوسرے ورشن میں ”بامِ بقائ“ کی شاعری میں تھوڑا بہت ردو بدل کیا گیا ہے،جسے نظر ثانی کے زمرہ میں لایا جا سکتا ہے۔میرے نزدیک اس نظر ثانی سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا ،تاہم ”بامِ بقائ“ کے بعد شعری مجموعہ کا نام””تم کبھی بے وفا نہ کہنا“کرنے سے طاہر عدیم کے ہاں با معنی سنجیدگی کی جگہ رومانی کیفیات کا غلبہ ہوگیا ہے۔عمر کے اس ابتدائی دور میں ایسی کیفیات کا اظہاراردو شاعری کی روایت میں شامل ہے۔سو یوں طاہر عدیم” ترے نین کنول“میں اپنی پہلی شاعری کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے سامنے آئے ہیں۔شاعری کی کلاسیکی روایت سے وابستگی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔اس کے نتیجہ میں ان کی اب تک کی شاعری میں فارسی سے قریب لفظیات اور تراکیب کو با آسانی دیکھاجا سکتا ہے۔ابتدائی شعری تربیت میں غزل کا کلاسیکی طرز اور اردو زبان میں فارسی کے اثرات یقیناً مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔تاہم اس سب کے ساتھ ساتھ طاہر عدیم نئی اردو غزل کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اس کو بھی اپنے مزاج کا حصہ بنا رہے ہیں۔یہاں ان کے ایسے چند اشعار دیکھتے ہیں جو قدیم اور جدید کے دوراہے کا منظر دکھاتے ہیں۔
اُٹھی کرسی،کٹا سبزہ، گرے پتے، اُڑی چڑیاں
تمہارے بعد کیا سے کیا ہوا دالان کا منظر
وہ جتنے دیپ اندر ہیں ،وہ آنکھوں میں ہی جلتے ہیں
اور آنکھیں ہی دکھاتی ہیں دلِ ویران کا منظر
حال اچھا تو ہے مکاں کا مگر
حال اچھا نہیں مکینوں کا
خواب ہے یا عذاب ہے کوئی
گھر میں رہتے ہوئے بھی گھر کی تلاش
ہم کو طاہر عدیم رہتی ہے
آج کل اپنی ہی خبر کی تلاش
کرتا ہی رہے لغزشیں میری نظر انداز
وہ مجھ کو سمجھتا رہے نادان مسلسل
وہ بھی طاہر ہے کبھی چھاؤں،کبھی دھوپ مزاج
اور کچھ اپنی طبیعت میں بھی سیماب ہوں میں
”بامِ بقائ“جس با معنی سنجیدگی کا متقاضی تھا اس کے اثرات بھی طاہر عدیم کے ہاں تدریجاً نمایاں ہو رہے ہیں۔یعنی ایک طرف تو وہ اپنی عمر کے تقاضہ کے تحت رومانی دنیا کی طرف گئے ہیں لیکن دوسری طرف اپنی ابتدائی با معنی سنجیدگی کو بھی نہ صرف سنبھالے ہوئے ہیں بلکہ اس میں پیش قدمی بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔چند اشعار سے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
عالمِ امن بھی ہوں۔۔منظرِ کہرام بھی میں
قصۂشہرِ یقیں، حصۂاوہام بھی میں
رات کے پچھلے پہراُٹھتا ہوا درد ترا
درد کی اُٹھتی ہوئی لہر کا پیغام بھی میں
قسمتوں کے دھنی رہے ہیں ہم
پھر سے زخموں کو سی رہے ہیں ہم
بے لکھی، بے پڑھی کہانی ہیں
اَن کہی، اَن سُنی رہے ہیں ہم
درد ہوں، ہو رہا ہوں اندر ہی
عشق ہوں،اِبتلا کی صورت ہوں
مسلسل بھاپ بن کر اُڑ رہا ہوں
مسلسل آگ جلتی جا رہی ہے
اس ایک بات پہ اُٹھتی ہیں دل کی بنیادیں
یہ ایک بات جو دکھنے میں بس ذرا سی ہے
نظر ہی بام پر میری نہیں، یا
نظر کے بام پر کوئی نہیں ہے
غزل کا ایک انداز وہ ہے جو کسی بھی قدیم و جدید سے بے نیاز بے ساختگی سے عبارت ہے۔طاہر عدیم کے ہاں ایسی مثالیں اپنا ایک خاص انداز رکھتی ہیں۔
کچھ وہ بھی چاہتا تھا یہاں مستقل قیام
میں نے بھی اُس کو دل سے نکلنے نہیں دیا
اک بار اعترافِ محبت پہ ، عمر بھر
ہم نے اُسے بیان بدلنے نہیں دیا
نہیں جس خواب کی تعبیر طاہر
وہ خواب اس دل کو ہم کب تک دِکھائیں
جس کے معتوب آج ہیں طاہر
اُس کے محبوب بھی رہے ہیں ہم
مصیبت سر سے ٹلتی جا رہی ہے
ہماری عمر ڈھلتی جا رہی ہے
کہاں ہے زندگی اب زندگی میں
فقط اک نبض چلتی جا رہی ہے
سمجھ کر سوچ کر دل میں اُترنا
یہ گھر ہے جس میں در کوئی نہیں ہے
ہتھیلی پر ہو دل کے ساتھ جاں بھی
ہیں جرمِ عشق میں مطلوب دونوں
نظر میں بھر گئے بوسے نظر کے
اور آخر ہو گئے مجذوب دونوں
طاہر عدیم کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان اشعار نے مجھے روک لیاکہ ان میں مجھے ان کے آئندہ کے روشن امکانات کی جھلک سی دکھائی دی ہے۔
نہ منزلوں کا تعین، نہ راستوں کی خبر
ہم ایسے لوگ تو بیکار کے مسافر ہیں
ہیں فرشِ راہ بلائیں تو ہم قدم آسیب
کسی جہانِ پُر اسرار کے مسافر ہیں
اردو ادب ایک عرصہ سے نظریاتی کشمکش کے مباحث میں الجھا ہوا ہے۔ہر شاعر اور ادیب فکری طور پر کسی نہ کسی نظریہ یا عقیدہ سے جڑا ہوتا ہے۔تاہم تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے اُسے وہ لمحۂآزادی نصیب ہونا ضروری ہے جب وہ کسی بھی خارجی دباؤسے رہا ہو کر اپنے اندر کی آوازکو تخلیق کا روپ دے سکے۔پھر بے شک تخلیق کار کے نظریات اس کے باطن سے رچ کر سامنے آئیں،وہ اس کے اندر کی، باطن کی سچائی ہو گی۔اس کے برعکس وہ لوگ جوبالائی سطح پر اپنے نظریات کی تبلیغ کا بیڑہ اُٹھا لیتے ہیں،یقیناً نظریاتی کارکن کی حیثیت سے ایک نیکی کا کام کررہے ہوتے ہیں۔اس کا صلہ بھی اپنے نظریاتی دوستوں کی داد کی صورت میں وصول کر لیتے ہیں۔تاہم تخلیقی عمل کسی منزل کے تعین کا پابند نہیں ہوتا۔بعض نظریاتی شعراءو ادباءاگر منزلوں کا تعین کرنے کے باوجود کامیاب ہوئے ہیں تو ان کی اس کامیابی میں بھی رستہ بھول کر بھٹک جانے کی کیفیت کا عمل دخل زیادہ رہا ہے۔وہی معاملہ کہ ہندوستان کو ڈھونڈنے نکلے تھے ،لیکن رستہ بھٹک گئے ۔اور اس بھٹکنے کے اجر کے طور پر ایک نئی دنیا دریافت کر لی۔سو مجھے طاہر عدیم کی منزلوں کا تعین نہ ہونے اور رستوں سے بے خبری کی کیفیت میں ان کے آئندہ امکانات کی جھلک دکھائی دی ہے۔
ادب میں نظریات کی پابندی کرنے والے وہ فرمانبردار شہزادے ہوتے ہیں جو بادشاہ سلامت کی نصیحت کے مطابق تین اطراف تک جاتے ہیں اور ہر طرح محفوظ و مامون رہتے ہیں۔جبکہ تخلیقی عمل کے آزاد بندے چوتھی طرف،چوتھی کھونٹ،اورممنوعہ علاقہ کے مسافر ہوتے ہیں۔ایسا سفر جہاں بلائیں فرشِ راہ تو آسیب ہم قدم ہوتے ہیں۔لیکن یہی سفر تو تخلیق کے نامعلوم اور پُر اسرار جہانوں میں لے جاتا ہے۔سو اسی وجہ سے مجھے طاہر عدیم کے مذکورہ بالا اشعار میں ان کے مخفی مگر بے پناہ امکانات کی جھلک سی محسوس ہوئی ہے۔ ان کے مزید بعض اشعار سے اس کی کسی حدتک توثیق بھی ہوتی ہے۔مثلاً:
آنکھوں میں لرزتا ہوا ہر خواب کبھی تھے
ہم بن کے ترا عکس سرِ آب کبھی تھے
میں تنگ ہوا جاتا ہوں اندر کہیں طاہر
اس گھر میں بڑھا جاتا ہے سامان مسلسل
مِری پتھر نظرمیں گھومتی چھت کس نے ٹانکی ہے
سروں پر تیرتے دیوار و در کس نے اتارے ہیں
تمہاری آنکھ کا رونا عذاب لگتا ہے
مِرا وجود مجھے زیرِ آب لگتا ہے
چھوڑ کر حُسنِ بلا کو طاہر
ایک آسیب ہے اندر باندھا
قسمتوں کے دھنی رہے ہیں ہم
پھر سے زخموں کو سی رہے ہیں ہم
بے لکھی، بے پڑھی کہانی ہیں
اَن کہی، اَن سُنی رہے ہیں ہم
مسلسل آبیاری کر رہا ہوں
مسلسل پیاس ہوتا جا رہا ہوں
ہر بات عجیب اداؤں میں خود کرتے ہیں
خود جاتے ہیں پھر بات بدل،ترے نین کنول
جھانکنا اُس پار سے اِس پار کا کوہِ گراں
اور پھراس”عمرِ لاحاصل کا حاصل“ دیکھنا
طاہر عدیم نے غزلوں کے ساتھ تھوڑی بہت نظمیں بھی کہی ہیں۔ان میں پابند اور آزاد،دونوں طرح کی نظمیں ملتی ہیں۔پابند نظموں کے معاملہ میں کہا جا سکتا ہے کہ ان نظموںمیں ان کی فنی گرفت مضبوط ہوتی ہے ۔تاہم سیدھی سادی بیانیہ صورت ہونے کی وجہ سے جدید نظم میں انہیں توجہ حاصل نہیں ہو سکے گی۔ویسے ان کی پابند نظموں سے مجھے یہ احساس ہوا کہ ہمارے اچھے اچھے شعراءاب پابند نظم کہنا بالکل ترک کر چکے ہیں۔جبکہ پابند نظم کا اپنا ایک ذائقہ ہوتا ہے اور شاعر اپنی روایت کی زمین میں گہرائی تک رہتے ہوئے بھی شاعری کے نئے گُل بُوٹے کھلا سکتا ہے۔پابند نظم کو ترک کرنے کا یہ تھوڑا سا نقصان ہوا ہے کہ ہمارے نظم نگار شعراءکے ہاں کسی حد تک سہل پسندی در آئی ہے۔جہاں تک طاہر عدیم کی آزاد نظموں کا تعلق ہے،وہ اپنی ہیئت میں آزاد ہوتے ہوئے بھی ان کی پابند نظموں اور غزلوں ہی کی اسیر ہیں۔نظم میں پیش قدمی کرنے کے لیے طاہر عدیم کو ن۔م۔راشد اور میرا جی سے لے کر وزیر آغا تک کے جدید شعراءکی نظموں کے مطالعہ کا مشورہ دوں گا۔مجھے یقین ہے ان شعراءکے مطالعہ سے طاہر عدیم کو جدید نظم کی تفہیم میں آسانی ہونے کے ساتھ اپنے لیے نئے رستے تراشنے میں بھی رہنمائی ملے گی۔
توقع ہے کہ اس مجموعہ کی اشاعت سے جہاں طاہر عدیم کی ادبی شناخت بہتر ہو گی،وہیں ان کا اگلا سفر شاعری کے طے شدہ جہانوں کی بجائے اَن دیکھے،نامعلوم اورپُر اسرار دیاروں کی طرف زیادہ ہو گا۔اردو غزل کی کلاسیکی روایات سے واقفیت بلکہ وابستگی نے انہیں فنی طور پر جلا بخشی ہے ،جدید غزل کا طرزِ احساس ان کے ہاں اُبھرنے لگا ہے اور اب تخلیقی طورپر انہیں اپنا آزادانہ سفر کرنا ہے۔اس سفر کی ساری بلاؤں اور ہر آسیب سے نمٹ لینے کے بعد طاہر عدیم کی غزل اپنی واضح شناخت قائم کر لے گی اورغزل کہنے والوں کے ہجوم میں بھی انہیں با آسانی پہچانا جا سکے گا۔
میں اس مبارک دن کا منتظر رہوں گا اور مجھے امیدہے کہ طاہر عدیم کا اگلا مجموعہ ہی ان کی واضح شناخت قائم کر دے گا۔
(شعری مجموعہ ترے نین کنول کا پیش لفظ۔ ۲۰۰۹ء)