سن ۱۹۸۰کے آس پاس کے زمانہ میں جو نئی شاعرات ابھر رہی تھیں،ان کی شناخت اور تفریق میں دو تین عوامل بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔ماضی کی” شاعراتِ بغاوت“ کے بر عکس نئی شاعرات پروین شاکر کے انداز کو پسند کر رہی تھیں اور اسی انداز میں آگے بڑھنا چاہ رہی تھیں۔اس میں بعض شاعرات نے الفاظ اور بحور کے انتخاب میں تھوڑی سی مشکل پسندی کو اپنایا اور اسی رو میں اپنا سفر جاری رکھا۔بعض شاعرات نے مشاعروںمیں اورویسے بھی مردوں میں شاعرات کی جانب سے محبت کے مقبول رویوں کو اپنا کرسطحی جذبات کو ہوا دینے کا رویہ اپنایا۔اس سلسلہ میں بعض شاعرات نے اپنی نجی زندگی کے سکینڈلز کو بھی اپنی عظمت کے طور پر پیش کر کے اعتراف اور(اپنے مطلب کی) حق گوئی کے درمیان ایک نئی جہت دریافت کی جسے ایک خاص طبقہ میں پسند بھی کیا گیا۔اس کے بر عکس بعض شاعرات نے شہرت کے حصول کے لیے اس قسم کے تجربات یا خطرات سے گزرنے کی بجائے اپنی داخلی کیفیات پر توجہ کی۔
ان شاعرات نے نہ تو اندازِ بیان میں الفاظ اور بحور کے انتخاب میں دیدہ دانستہ مشکل پسندی اختیار کی اور نہ ہی نجی زندگی کے اسکینڈلز کو عظمت کی بنیاد بنانے والوں کی راہ کو پسند کیا۔اچھا ،برا ،دکھ،سکھ،سنہرے خواب ،بر عکس تعبیروں کے دکھ ،محبت کی لمحاتی کیفیات یہ سب تجربے ان شاعرات کی زندگی میں بھی تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی کے ایسے سارے تجربات کو اپنے داخل سے آمیز کرکے اپنے اظہار کی راہ نکالی۔اس راہ کو اختیار کرنے والی شاعرات بہت کم تھیں کہ شہرتِ عام کے حصول کے لیے چکا چوند پیدا کرنے والی شاعری زیادہ کارآمد تھی۔
ایسی شاعرات میںسن۱۹۸۰کے لگ بھگ زمانے میں ابھرنے والی شاعرات میں سب سے اہم نام فرحت نواز کا ہے۔اپنی گھریلو اور تدریسی زندگی کی وجہ سے بے شک وہ بعد میں شعروادب سے زیادہ وابستہ نہیں رہ سکیں۔تاہم اُس زمانے میں ان کی جتنی شاعری ادبی رسائل میں چھپ چکی ہے،اس کی بنیاد پر اس مخصوص رویے کی شاعری میں انہیں اہم شاعرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کی نظموں میں اپنی بات سادہ الفاظ میں اور سادگی سے کہنے کا رویہ ہے لیکن اس کے باوجود عموماً یہ نظمیں سادہ اور اکہرے معنی کی حامل نہیں ہوتیں۔ان میں کہیں ایک نئی اور انوکھی معنویت کا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نظم ”مِری شاعری“کو دیکھیں۔
ایک گھونٹ کافی کا پی کر
پیالی میز پہ رکھوں اور پھر
دیر تلک تجھ کو ہی سوچوں
اپنی سوچ کے رنگوں سے جب
تیرا پیکر بنتے دیکھوں
کافی کا اک گھونٹ بھروں اور شعر کہوں
پھر تجھ کو سوچوں
تیرا پیکر بنتے دیکھوںگھونٹ بھروں،
پھر شعر کہوں
اور گھونٹ گھونٹ یوں تیرا پیکر
میرے اندر اترا جائے
مری شاعری ہوتی جائے!
اس نظم میں کچی عمر کی محبت سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہے لیکن اس سادگی کا کمال ہے کہ محبت جنسی حوالے سمیت اتنی لطیف ہو کر بیان ہوئی ہے کہ کہیں چکا چوند پیدا کرنے والی شاعرات جیسی سطح نہیں ابھری۔
فرحت نواز کی نظموں میںشک اور یقین کے درمیان اٹکی ہوئی ایسی کشمکش ملتی ہے جس نے ان کی نظموں کو ایک ہلکی سی دھند میں ملفوف کر رکھا ہے۔اس سے معنی کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہیں ہوتی اور کشمکش کی لہریں معنی کی ایک سے زائد پرتوں کی صورت دکھائی دینے لگتی ہیں۔اس حوالے سے ”اداس آنکھوں کا روگ“ ، ”کشمکش“، ”کٹی پتنگ“،”بچھڑتے لمحوں میں“اور ”ڈائلما“جیسی نظمیں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔
”ہجرت“ اور”بن باس میں ایک دعا“اپنی معنوی تہہ داری میں بہت اعلیٰ پائے کی نظمیں ہیں۔ ”ہجرت“ محبت کی داستان کا ایک حصہ ہے لیکن اس کے پس منظرمیں جو تاریخی اور تہذیبی حوالہ موجود ہے اور پھر اسی حوالے سے کچھ مختلف ہوتے ہوئے جو نظم کا اختتام ہوتا ہے وہ نظم کو بڑا خوبصورت ٹچ دے جاتا ہے۔
ساتھ تمہارے کیسے ہولوں
بعد میں آنے کا وعدہ بھی کر نہیں سکتی
میرے پاس امانتیں ہیں جو
کس کو سونپوں؟
کوئی بھی ذمہ لے نہیں سکتا
ظاہر ہے اپنے بستر پر
مجھ کو خود ہی سونا ہوگا!
”ہجرت“ کے برعکس ”بن باس میں ایک دعا“اپنے ثقافتی پس منظر سے ابھرتی ہوئی نظم ہے۔قدیم برصغیر سے رام چندر جی کی داستان کے حوالے سے پھوٹتی ہوئی یہ نظم عورت کے جذبوں سے لے کر عصمت تک کی رودادکو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔قدیم ہندوستان کی سیتا کے کردارسے روشنی حاصل کرتے ہوئے آج کی عورت کا دکھ اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ سماجی مسائل سے لے کر ذاتی کیفیات تک کی ترجمانی ہوجاتی ہے۔میں نے سماجی مسائل کا لفظ سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔وطنِ عزیز سے باہر جو شوہر کمائی کرنے جاتے ہیں اور ان کی بیویاں وطن میں ان کا انتظار کرتے ہوئے جن کیفیات سے گزرتی ہیں ،یہ نظم ایک سطح پر ان جذبات کی ترجمانی کرتی ہے جبکہ دوسری سطح پر یہ خود فرحت کی ذاتی واردات بھی ہے۔
میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہوکہ
جسم کے اندر خواہش کا لوبان سلگ کر بجھ جائے
اور پیاس چمک کر مٹ جائے
میرے مالک!
میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہو کہ دنیا مجھ کو
پھر دوبارہ شک سے دیکھے
پھر ویسا بہتان لگے!
نظم کا یہ اختتامیہ خواہش کے لوبان کے ساتھ ہی جنسی لذت انگیزی کی بجائے عبادت گاہ کا تصور ذہن میں لے آتا ہے۔یہ فرحت نواز کی شعری خوبصورتی ہے کہ ان کے ہاں جنسی جذبہ بھی اتناسبک اور لطیف ہوجاتا ہے کہ اس میں ایک طرح سے تقدس کا احساس نمایاں دِکھنے لگتا ہے۔فرحت کی نظم ”دعا“ اس تقدس کی اگلی کڑی ہے۔ماں کے دودھ کا ذائقہ تک بھول جانے کے دکھ سے شروع ہوتی یہ نظم جس میں ماں سے محبت کے اظہار کے ساتھ،اس کی اتنی خدمت کرنے کی توفیق پانے کی دعاکی گئی ہے جس سے جنت میں جانا یقینی ہو جائے۔ لیکن جس میں خود جنت کے حوالے سے یہ نکتہ بہت ہی خوبصور ت ،انوکھا اور شاندار ہے۔
مجھے یقیں ہے
جنت کی نہروں میں ہر دَم بہنے والا دودھ
یقیناً ماں کے دودھ ایسا ہی ہو گا!
فرحت نواز کی دوسری نظمیں محبت کے جذبے کے مختلف رنگوں سے رنگین ہیں۔ان میں وہ ساری کیفیات ہیں جو کچی عمر کی محبت کا خاصہ ہوتی ہیں۔لیکن اپنے اظہارِ بیان کی تمام تر سادگی اور ایک تہذیبی پیرایہ کے باوجود ان میں نفسِ مضمون سے منسلک لیکن معنی کی ایک نئی کونپل پھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔ شادی کے بعد کی زندگی میں والدکی وفات کے بعد ان کی زندگی ایک نئے کرب سے آشنا ہوئی۔اس حوالے سے ان کی دو چھوٹی سی نظمیں اپنے اندر کرب کا ایک جہان لیے ہوئے ہیں۔ایک نظم کا اختتامی حصہ دیکھیے۔
میں نے جتنے لفظ پڑھے تھے
ان کے جو معنی سمجھے تھے
آج وہ سارے بدل گئے ہیں
ماضی،حال اور مستقبل کے سارے لمحو!
مجھ کو کچھ بھی نہیں سمجھاؤ
میری طرح بس سوگ مناؤچُپ ہو جاؤ
اسی طرح شادی کے بعد کی زندگی کے تجربات پر مشتمل ان کی تین نظمیں جو ویمن ڈے کے موقعہ پر لکھی گئی تھیں، در اصل ہمارے معاشرے کے عمومی مردانہ کردار کی نشان دہی کرتی ہیں۔ان میں سے ایک نظم دیکھیے:
وہ جس کے لیے زندگی وقف کی
سانس جو میں نے لی
جس کی مرضی سے لی
جس کے ہر حکم پہ سر جھکایا
ذہانت،فتانت کے لب سی دئیے
حسن و تعلیم کا زعم بھی نہ کیا
نہ ہی بھائیوں کے عہدوں پہ اترائی میں
جس کے سب پیاروں کی میں نے خدمت بھی کی
دل سے عزت بھی کی اور محبت بھی کی
جس کی نسلی بقا کے لیے میں نے وارث بھی پیدا کیے
جس کے گھر میں روزانہ مشقت کی اجرت ملی
رات کو اس طرح
مجھ کو خوش نہ کیاتو عبادت تمہاری عبادت نہیں
رب بھی راضی نہیں
وہ جس کے لیے سچے رب کی بھی میں نے عبادت نہ کی
سوچتی ہی رہی
وہ مجازی خدا
مجھ سے راضی جو ہوگا
تو رب سچا بھی مجھ سے راضی رہے گاسدا
میں نے سب کچھ کیا
پر نہ راضی ہوا وہ مجازی خدا!
اس نظم میں شکوہ اتنا گونجدار ہو گیا ہے کہ بہت سی دکھی خواتین کے لیے تسکین کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ یہ نظم فرحت نواز کی نظم نگاری کے عمومی انداز سے کچھ ہٹ گئی ہے اور معنوی اعتبار سے بھی کسی حد تک اکہری رہ گئی ہے۔اس کے بر عکس ایک اور نظم جو اسی تناظر میں کہی گئی ہے ، شکوہ ہوتے ہوئے بھی زیادہ معنی خیز اور تہہ دار ہے۔
میری تو قسمت چمکی ہے
گال گلاب اور آنکھیں نیلم
لب یاقوت اور دل سونا ہے
جسم ہے گویا سچا موتی
تم تو ہو انمول خزانہ
اس انمول خزانے پر وہ
پہلی رات سے لے کر اب تک
پھن پھیلائے بیٹھا ہے
یہاں ڈاکٹر رشید امجد کے ایک پرانے مضمون”فرحت کی نظمیں“مطبوعہ جدید ادب خانپور،شمارہ نومبر ۱۹۸۰ء،صفحہ نمبر ۳۸۲تا ۳۸۵سے ایک طویل اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔
”فرحت نواز جذبوں کی کوملتا اور نرول پن کی شاعرہ ہے۔اس کے یہاں پُرپیچ فلسفوں اور بڑے بڑے آدرشوں کی جگہ خواب زدگی کی ایک ایسی کیفیت ہے جو اپنے اندر خلوص و محبت کا ایک سمندر چھپائے ہوئے ہے۔ ۔۔۔میرا خیال ہے کہ کسی شعر میں بڑا فلسفہ یا آدرش ہو نہ ہو،خلوص کی کوملتا اور جذبے کا نرول پن ہونا ضروری ہے۔اس حوالے سے مجھے فرحت نواز کے یہاں ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔
فرحت نواز نے اپنی بہت سی ہم عصر شاعرات کی طرح جنس کے کچے پن کے اظہار کو ذریعہ بنا کر شہرت کی سیڑھی چڑھنے کی کوشش نہیں کی۔اس کے یہاں جذبہ روح کی ایک بنیادی طلب ہے اور رومان محض جسمانی محبت نہیں بلکہ وجدانی کیفیات کا عکاس ہے۔محبوب پہلی نظر میں جیتا جاگتا انسان ہے مگر پوری نظم کے تخلیقی عمل میں گوشت کی لذتیں منہا ہو کر روح کی رنگینیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ایک عجیب بات یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی نظمیں سادہ سی محسوس ہوتی ہیں،لیکن ایک مصرعہ یا لفظ کو وہ اس طرح تخلیقی حرکت دیتی ہے کہ نظم کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔۔۔۔۔فرحت کی شاعری میں خوف،شک اور متزلزل کیفیت کی تکون بنتی ہے۔وہ زلزلوں کی زمین پر کھڑی وہ عورت ہے جس کے اندر کی عورت جاگ بھی رہی ہے مگرزلزلوں کی دھمک اور اردگرد کی صورتحال سے خوفزدہ بھی ہے۔وہ نہ تو اس عورت کو سلانا چاہتی ہے اور نہ ہی جگائے رکھنے پر آمادہ ہے۔یہیں پر اس کی شاعری کا بنیادی تنازعہ جنم لیتا ہے۔سوال ابھرتے ہیں اور ان سوالوں کا کشکول لیے وہ کبھی تو جذبوں کی وادیوں میں اترتی ہے اور کبھی فکر کی گھاٹیاں طے کرتی نظر آتی ہے۔سوال اس کی ہر نظم میں ہے مگر وہ پرانے شاعروں کی طرح اس کا دو ٹوک منطقی جواب نہیں دیتی بلکہ اشاروں اور کنایوں کی صورتحال میں لا کر چھوڑ دیتی ہے۔۔۔۔ایک بات جو اسے بہت سے دوسرے شاعروں سے منفرد کرتی ہے یہ کہ اس کے سارے تجربے اس کے اپنے ہیں۔چھوٹی چھوٹی خوشیاں ، ننھے ننھے دکھ اور ایک مختصر سا ماحول بظاہر اس کی شاعری کے دائرے کو خاصا مختصر کر دیتا ہے مگر اس محدود دائرے میں ایک سچائی ہے اور وہ ہے اس کا اپنا آپ۔کہ وہ نہ تو دوسرے کے تجربوں اور جذبوں کو دہراتی ہے اور نہ اپنے آپ کو دوسروں کے ذہن میں رکھ کر سوچتی ہے۔اس کی دنیا مختصرسہی مگر اپنی ہے اور یہی اپنا پن اس کے جذبوں کو کوملتا اور نرول پن عطا کرتا ہے،اس حوالہ سے مجھے اس کی نظموں میں ایک سوندھا پن اور اپنی مٹی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔“
یہ طویل اقتباس اس لیے بھی دیا ہے کہ فرحت نواز کو اس سے کچھ تحریک ملے۔وہ ایک لمبے وقفہ کے بعد کسی حد تک بے دلی کے ساتھ شاعری کی طرف واپس آرہی ہیں۔میں ادب کی دنیا میں ان کی واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے پورے شعری امکانات کے ساتھ آئیں ۔اپنی سادگی میں تہہ دار معنویت کے عمومی انداز کو قائم رکھتے ہوئے اس شعری سچ کو اظہار کا روپ دے سکیں جو ایک عرصہ سے ”خواہش کے لوبان“کی طرح سلگ رہا ہے لیکن بجھا نہیں ہے۔
اردو دنیا ان کی ایسی نظموں اور شعری تخلیقات کی منتظر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد ۔کتاب نمبر ۱۲۔ستمبر ۲۰۱۰ء)