غلام جیلانی اصغر کا شعری مجموعہ ” میں اور میں“ اپنے نام ہی سے چونکاتا ہے۔ بظاہر یہ نام شعور ذات اور عرفان ذات کی بجائے ” تکرار ذات“ اور ” اصرار ذات“ کی نئی اصطلاحیں پیدا کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن شاید حقیقت کچھ اور ہے۔ غلام جیلانی اصغر ایسے منفرد لوگوں میں سے ہیں جو بچے سے زیادہ بچے کے نام کو فوقیت دیتے ہیں۔ سو مجموعے کا نام ان کی اسی انفرادیت کا مظہر ہے۔ ”اظہار ذات“ ان کا مقصود ہے اور ڈاکٹر سید عبداللہ کے دیباچے کے مطابق غلام جیلانی اصغرکی شاعری کے سرے ” عرفان ذات“ سے ملتے ہیں۔ غلام جیلانی اصغر نے شعری تنقید کے جس رویے کو احتساب زات قرار دیا ہے، اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پھر، شعور ذات، عرفان ذات ،تکرار ذات ،اصرار ذات ،اظہار ذات، وغیرہ ساری صورتوں سے غلام جیلانی اصغر کو ” ذات پات“ کا شاعر کہا جا سکتا ہے۔لیکن زندگی کی تلخ حقیقتوں کا ادراک رکھنے والے غلام جیلانی اصغر ذات پات کے شاعر تو کیا اس کے قائل بھی نہیں ہیں۔ تو پھر ” میں اور میں“ کا مطلب کیا ہوا ؟
سائنسی فارمولے کی رو سے مثبت قوتیں مل کر مثبت رہتی ہیں جب کہ دو منفی قوتیں مل کر مثبت ہو جاتی ہیں۔ غلام جیلانی اصغر نے ” میں اور میں“ کے ذریعے ادب میں پہلے سائنسی فارمولے کو مسترد کر دیا ہے۔ ’میں‘ ایک اثباتی قوت ہے ” میں اور میں “ دو اثباتی قوتیں ہیں یہ دونوں قوتیں مل کر پہلے اپنے اثبات کا احساس دلاتی ہیں اور پھر اثبات کے احساس سے نفی ذات کا صوفیانہ رویہ جنم لیتا ہے، گویا ” میں اور میں“ اثبات ذات سے نفی ذات تک کے صوفیانہ سفر کا عنوان ہے۔پہلے اثبات ذات کے چند جلوے دیکھ لیں:
میرے اندر آتی جاتی سب رُتیں آباد ہیں
آنکھ میں سورج بھی ہے، رنگت بھی ہے برکھا بھی
راستوں پہ کب تلک رنگوں کے پیکر دیکھتے
رو برو ہو کر کبھی اپنا بھی منظر دیکھتے
تو نے ہر چند زباں پر تو بٹھائے پہرے
بات جب تھی کہ مری سوچ کو بدلا ہوتا
دل کو صحرا کیجئے آنکھوں کو دریا کیجئے
اس طرح بھی ایک دن اپنا تماشا کیجئے
مری طرح سے کوئی آسماں میں جلتا ہے
یہ دور پار اُفق پر الاؤکیسا ہے
ذات کا یہ اثبات جب اپنے شعور اور عرفان سے دو چار ہوتا ہے۔ تو پھر اسے اپنی نفی کا اعلان بھی خود کرنا پڑتا ہے:
اپنے ہونے پر، نہ ہو نے کا گماں ہونے لگا
اس سے مل کر ایک احساس زیاں ہونے لگا
مجھ سے ملتے ہیں تو سب پہچان لیتے ہیں مجھے
ریزہ ریزہ ذات کا شاید کوئی چہرہ بھی ہے
موج صرصر کا کوئی جھونکا اڑا لے جائے گا
ریت کی دیوار پر کب تک بھروسہ کیجئے
ان چند مثالوں سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ ” میں اور میں“ اثبات ذات سے شروع ہونے والا ایسا سفر ہے ، جو نفی ذات کے صوفیانہ راستے تک پہنچتا ہے۔
” میں اور میں“ کی شاعری نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ نظموں میں غلام جیلانی اصغر کہیں کہیں راشد، مجید امجد اور وزیر آغا کی نظمیہ روایت سے کندھا ملاتے نظر آتے ہیں مثلا:
مجھے شہر جاں میں کہاں تم ملو گے
یہاں تو زمستاں کی یخ بستگی ہے
کواڑوں، دریچوں
گھروں کی فصیلوں پہ کائی جمی ہے (شہر جاں کی فصیلوں سے باہر)
” میں پھول پتوں سے، شاخساروں سے
رنگ و بو سے گھرا کھڑا ہوں
تمام دن نرم رو ہوائیں
مرے ادھڑتے بدن کی شاخوں سے جھولتی ہیں“ (بچوں میں ایک دن)
ہوا رات بھر گیت گاتی رہتی ہے
کبھی سرسراتے لباس میں خوشبو کی ہلکی سی جنبش کی لے میں
کبھی کوہساروں کے ہیکل میں بجتی ہوئی گھنٹیوں کی طرح
گنگناتی رہی (دسمبر کی رات)
لیکن غلام جیلانی اصغر کی نظموں کا مزاج بنیادی طور پر ترقی پسند شعراءکی نظمیہ شاعری کی توسیع ہے۔ نظموں کے بہت سارے ٹکڑوں کا غزلیہ انداز اگر چہ راشد کے ہاں ”ایران میں اجنبی “ کی فارسیت کے زیر اثر بھی ابھرا ہے لیکن غلام جیلانی اصغر کی نظموں میں غزلیہ انداز نظموں کا واضح اور فیصلہ کن اختتام ان کو فیض، ساحر اور احمد ندیم قاسمی سے جوڑتا نظر آتا ہے۔چند مثالیں:
میرے رونے کو بُرا مانتی ہو
اس سے مطلوب شکایت تو نہیں
یہ میرا اشکِ ندامت بھی نہیں
یہ مرے ذوق عقیدت کی فراوانی ہے (آنسو)
دیکھو یوں خاموش نہ بیٹھو
اس سے لوگ یہی سمجھیں گے
جیسے تم کو روگ لگا ہو
ایسے ہی الزام لگا کر
گلی گلی تشہر کریں گے (چپ)
آج کے روز جئیں کل کو خدا پر چھوڑیں
ایک لمحے کے لئے وقت کا بندھن توڑیں (وجودیت)
پت جھڑ کا ایک لمبا خنجر
میری نس نس کاٹ رہا ہے
مولسری کو پھول اور پتے
مجھ کو کانٹے کانٹے بانٹ رہا ہے (تقسیم)
ترقی پسند نظموں میں عمومی طور پر تیز نعروں کی آندھی کے باعث تخلیقی لو بجھ جاتی ہے۔ اسی لیے ترقی پسند نظمیں عام طور پر سپاٹ سٹیٹمنٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتیں ۔۔۔۔ غلام جیلانی اصغر ترقی پسند نظم کے زیر اثر ہونے کے باوجود نعرے کی سطح پر نہیں آئے۔ فیض جیسا دھیما پن اختیار کیا اسی لیے ان کی نظمیں نعرے نہیں لگواتیں بلکہ سوچ میں ایک حرکت پیدا کرتی ہیں۔
”میں اور میں“کی غزلوں کا ایک اپنا انداز ہے۔ وزیر آغا سے شخصی سطح پر دوستی کے باوجود غلام جیلانی اصغر کی غزل واضح طور پر وزیر آغا کی غزل کی دوسری سمت میں سفر کر رہی ہے ، مثلاً وزیر آغا کہتے ہیں:
اک بار ہم نے پار کیا چُپ کا ریگ زار
پھر عمر بھر اٹے رہے لفظوں کی دھول میں
غلام جیلانی اصغر کی تمنا وزیر آغا کے بالکل برعکس ہے۔
میں ایک عمر سے لفظوں کی قید و بند میںہوں
کبھی تو تم سے خموشی میں گفتگو کرتا
اس صورت حال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وزیر آغا کی غزل اگر مغرب کی طرف سفر کر رہی ہے ۔ تو غلام جیلانی اصغر کی غزل مشرق کی طرف، لیکن دونوں کا آغاز ایک ہی ہے۔ بہر حال ” میں اور میں“ کی غذلوں کا اپنا ایک انداز اور بانکپن ہے اور غزل پڑھنے والوں کے لیے اس میں عمدہ انتخاب موجود ہے۔ غزلوں کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
صورتیں ساری وہی ہیں لوگ بھی سارے وہی
اک ترے جانے سے لیکن شہر کیوں تنہا لگے
ہونٹ چُپ چاپ سہی آنکھ ہی کچھ کہہ جاتی
روٹھنے والے سلیقے سے تو روٹھے ہوتے
ایک تو ہے بات بھی سہتا نہیں
اک ہم ہیں تیرا غم بھی سہ گئے
دل کے جانے کا بہر صورت بہت صدمہ ہوا
اس سے وابستہ کئی لوگوں کے افسانے بھی تھے
ستم کرو بھی انداز منصفی سے کرو
کوئی سلیقہ تو انداز دوستی سے ملے
” میں اور میں“ اردو شاعری میں یقینا ایک خوبصورت اضافہ ہے۔
(مطبوعہ اوراق لاہور)