اردو میں ادب کے سنجیدہ قاری کے غائب ہونے کے مسئلہ پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور بہت کچھ کہنے کی گنجائش موجود ہے۔میری دانست میں تو خود ہمارے شاعروں اور ادیبوں میں بھی ادب کے سنجیدہ قاری بہت کم ہوتے جا رہے ہیں۔
پروفیسر ناصر احمد انگریزی ادبیات کے استاد تھے۔میرے ماموں بھی تھے اور میری اہلیہ کے والد بھی۔اس لحاظ سے ان کے بارے میں میرا کچھ بھی لکھنا ایتاءذی القرباءکے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔لیکن میرے لکھے کی ادبی تصدیق ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے مضامین سے بخوبی کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر ظہور احمدا عوان نے سب سے پہلے پروفیسر ناصر احمد کا خاکہ”جدید حاتم طائی۔خدائی خدمتگار‘ ‘ تحریر کیا جو روزنامہ مشرق پشاور کی اشاعت۱۳اکتوبر ۱۹۹۳ءمیں شائع ہوا،اور ان کے خاکوں کے مجموعہ میں بھی شامل کیا گیا۔اس کے بعد انہوں نے ان کی وفات پر تعزیتی کالم لکھا۔پھر اکا دکا کسی تحریر میں ضمناً ذکر بھی ہوتا رہا لیکن اب ان کا آخری کالم تو کمال کا پس منظر رکھتا ہے۔پروفیسر ناصر احمد کے چھوٹے بھائی اور میرے چھوٹے ماموں صادق باجوہ کاپہلا شعری مجموعہ شائع ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کو اس کی ایک جلد بھیجی۔ڈاکٹر صاحب نے کتاب دیکھی اور اس پر لکھنے بیٹھے تو کتاب سے زیادہ پروفیسر ناصر احمد پر لکھ دیا۔ان کا یہ کالم(دل پشوری)”اچھے انسان مَرا نہیں کرتے“کے نام سے روزنامہ” آج“ پشاور ،۵اگست ۲۰۰۸ءمیں چھپ چکا ہے اور اس گوشہ میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
میں نے ماموں ناصر کا خاکہ ”رانجھے کے ماموں“ ۲۹۔۱۹۹۱ءمیں لکھا تھا۔یہ کراچی کے ادبی رسالہ صریر میں بھی شائع ہوا ،صوبہ سرحد کے ایک اخبار میں بھی چھپا،میرے خاکوں کے مجموعہ ”میری محبتیں“ میں بھی شامل ہے اور میری ۱۱کتابوں کی کلیات” عمرِ لاحاصل کا حاصل“ میں بھی شامل ہے۔میرے جن چند خاکوں کو بہت سراہا گیا ان میں ماموں ناصر کا یہ خاکہ بھی شامل ہے۔اپنے اس خاکہ کو بھی اس گوشہ میں شائع کر رہا ہوں۔
پروفیسر ناصر احمد کا علمی و ادبی ذوق اتنا عمدہ تھاکہ قارئین ہی نہیں آج کے بہت سارے ادیبوں کے لیے بھی انہیں بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ کسی تخلیق کی قرات کرتے ہوئے وہ جب اس کی خوشبو سے بھر جاتے تو اپنے ملنے والوں کو بھی اس خوشبو سے معطر کرنے لگتے۔انہیں بے شمار اشعار ہی زبانی یادنہ تھے بلکہ کئی نثر پاروں کے پورے پورے اقتباس انہیں ازبر تھے۔ تدریسی طور پر بھی وہ اپنے ادبی ذوق سے فائدہ اٹھاتے۔ایسے نثری اقتباس جو ان کے نزدیک عمدہ فن پارے ہوتے تھے اور لسانی لحاظ سے بھی زبان کا کمال ظاہر کرتے تھے،وہ ایسے اقتباس اپنے شاگردوں کو یہ کہہ کر دیا کرتے تھے کہ جو ان کا ٹھیک انگریزی ترجمہ کر لے گا،وہ انگریزی سیکھنے میں پختگی حاصل کر لے گا۔
پروفیسر ناصر احمد نے اپنی زندگی میں صرف ایک شعر کہا۔میرے نام ان کے ایک طویل نجی خط میں انہوں نے وہ شعر لکھا تھا۔اب ان کی چھوٹی بیٹی بشریٰ ہما نے بھی مجھے وہی شعر ارسال کیا ہے۔یہ شعر ریکارڈ پر لا رہا ہوں۔
تو آنے والے زمانے کا غم نہ کر ناصر
کہ رات اپنے ستاروں کو ساتھ لائے گی
کسی قسم کی بھی صورتحال ہو وہ ہمیشہ پُر اُمید رہتے تھے۔یہ شعر ان کے رجائی ذہن کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
پروفیسر ناصر احمد کے لیے یہ چھوٹا سا گوشہ ادب کے ان تمام سنجیدہ قارئین کے نام ہے جو مادہ پرستی کے اس برق رفتار دور میں بھی ادب کے مطالعہ کے لیے نہ صرف وقت نکالتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت اور قدروقیمت کے بھی معترف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ ۱۳۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۹ء)