گلِ موسمِ خزاں“اور”تمہیں جانے کی جلدی تھی“
ایوب خاور تازہ کار اور خوش فکر شاعر ہیں۔ٹیلی ویژن کی دنیا کی مصروفیات نے ان کے اندر کے شاعر کے اظہار میں کچھ نہ کچھ رکاوٹیں تو ڈالیں لیکن وہ شاعر نہ زندہ رہا بلکہ اپنی آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہا۔اس شاعر کی زندگی کے ثبوت کے طور پر ان کے دو شعری مجموعے”گلِ موسمِ خزاں“اور ”تمہیں جانے کی جلدی تھی“ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ایوب خاور بنیادی طور پر نظم کے نہایت شاندار شاعر ہیں لیکن ان کی غزل بھی اتنی کَسی ہوئی اور بھر پور ہوتی ہے کہ انہیں صرف نظم کا شاندار شاعر کہہ دینا ان کی غزل کے ساتھ نا انصافی ہوجاتا ہے۔ان کی نظم ”ماں“جدید ادب میںخانپور کے زمانہ میں شائع ہوئی تھی۔اس نظم کا ایک بڑا اقتباس میری والدہ کے خاکہ”مائے نی میں کنوں آکھاں“ کے اختتام میں اس طور سمایا ہے کہ اسے اس خاکے سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔شاید اس لیے بھی کہ ہم جیسوں کی مائیں ایک جیسی تھیں ۔
میں ایوب خاور کی نظم کا ایسا خاموش قاری ہوں جو خود ہی اس سے لطف کشید کرتا رہتا ہوں۔”گلِ موسمِ خزاں“ کی نظم”گھروں میں ایک گھر ایسا بھی تھا“پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ اس میں سے چند سطریں غائب ہیں:
”زمانہ ایک بنئے کی طرح چالاک ہے
ہونی کو انہونی میں،انہونی کو ہونی میںکچھ ایسے ہی بدلتا ہے
کہ جس کے دکھ میں آنکھوں کے بھرے ساون پیالے ٹوٹ جاتے ہیں“۔۔۔۔
ان سطور کے بعد نظم کا یہ حصہ غائب ہے:
”ہوا سوچوں میں گرہیں ڈال دے تو روح کے اندر اترنے والے ساتھی چھوٹ جاتے ہیں“
میں ربع صدی پیشتر پڑھی ہوئی مذکورہ نظم کے بارے میںاپنی یادداشت کے بل پر یہ نشاندہی کر رہا ہوں،ایوب خاور کتاب کے نئے ایڈیشن میں نظم کو دوبارہ چیک کر لیں تو اچھا ہے۔
غزلوں میں سے کسی انتخاب کے بغیر چند اشعارپیش ہیں۔ ایوب خاور کایہ عمومی انداز بھی بہت خاص ہے۔
ہوا کو اپنے لیے بادبان میں نے کیا
حدِ نظر سے پرے،آسمان میں نے کیا
تیری آنکھیں میری آنکھیں لگتی ہیں
سوچ رہاہوں کون یہ تجھ سا مجھ میں ہے
وہ نیند اپنے بچپنے کی راہ میں اجڑ گئی
اس آنکھ نے بھی معجزوں کے سو جہان کھو دئیے
تیرے بِنا جو عمر بِتائی بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام
یاد رکھنے کے لیے اور نہ بھلانے کے لیے
اب وہ ملتا ہے تو بس رسم نبھانے کے لیے
حُسن اور عشق کے مابین ٹھنی ہے اب کے
اس لڑائی میں کسی ایک کا سر جائے گا
تیسرے مجموعے کی اشاعت کے بعد ایوب خاور تینوں مجموعے ایک جلد میں لائیںتاکہ ان کی مجموعی شعری قدر و قیمت سامنے آسکے۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: ۱۳۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۹ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت کچھ کھو گیا ہے(شاعری)
”گل موسم خزاں“اور” تمہیں جانے کی جلدی تھی“کے بعد ایوب خاور کا تیسرا شعری مجموعہ”بہت کچھ کھو گیا ہے“شائع ہو گیا ہے۔یہ شعری مجموعہ ایوب خاور کے فکری و شعری ارتقا کو واضح کرتا ہے ۔زبان کے تخلیقی برتاؤمیں پختگی پہلے بھی تھی ،لفظوں پران کی یہ گرفت اب اور زیادہ ہوئی ہے۔زبان کا تخلیقی برتاؤلچک کا تقاضا کرتا ہے اور پختگی اس لچک میں رخنہ پیدا کرتی ہے،لیکن ایوب خاور کی عمر بھر کی ریاضت اس پل صراط پرسے چہل قدمی کرتے ہوئے گزرتی گئی ہے۔
نظم و غزل ہر دو کے اظہار میں انہیں یکساں قدرت حاصل ہے۔نظموں میں ”دعا“،”التجا“،”میرے لیے میری بیگم کی طرف سے ایک نظم“،”بہت کچھ کھو گیا ہے“،”عکسِ مہتاب“ کی سات نظمیں،”رقصِ مہتاب“،”زخمِ مہتاب“اور ”حاصل لا حاصل“ کے تحت درج نظمیں اپنے اختصاص کی بنیاد پر زیادہ توجہ کھینچتی ہیں۔تاہم اس سے دوسری نظموں کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔
غزلوں میں سے چند منتخب اشعار سے ان کی غزل کے سفر کو بخوبی دیکھااور سمجھا جا سکتا ہے۔
کیا نہیں ہے جو سدا رقص میں ہے
مستقل ارض و سما رقص میں ہے
کون لَے کار ہے،کس کی لَے پر
ایک زنجیر بہ پا رقص میں ہے
اک وحشتِ بے نام نہیں چھوڑتی دل کو
اک ہجر ہے اور ریت کا اُڑتا ہوا دریا
یہ بلا گھر کی ہے اب اس کا کیا جائے بھی کیا
اس محبت ہی کے تو پالے ہوئے لوگ ہیں ہم
ہر شخص کی دنیا میں ہے اک حُسنِ دل آرا
ہر شخص اسی ایک کہانی کے لیے ہے
ایک دہشت درو دیوار سے چپکی ہوئی ہے
لاش کے پاس ہی بچے کے کھلونے پڑے ہیں
حُسن اور عشق کا ایک ہی رشتہ
درد نیا اور ٹیس پرانی
خیال آیا ہے اب جا کر، ہمیں بھی
زمانہ ساز ہونا چاہیے تھا
اس مجموعہ کے آخر میں ایوب خاور نے اپنے ٹی وی ڈرامہ سیریلز کے تھیم سانگزکا انتخاب کرکے آٹھ گیت شامل کیے ہیں۔یہ سارے گیت ادبی شان کے حامل ہیں۔خاص طور پر (ڈرامہ)” پرندو لوٹ آؤکا گیت بہت ہی پُر تاثیر ہے۔کتاب کے ساتھ ”نیناں جوگ بھرے“کا ایک سی ڈی تحفہ بھی منسلک ہے۔اس میں ایوب خاورکے گیارہ فلمی و ڈرامہ گیت شامل ہیں اور ان کی مقبولِ عام غزل”سات سُروں کا بہتا دریا تیرے نام“بھی شامل ہے۔مختلف گلوکاروں کی آوازوں میں ایوب خاور کی شاعری کو سننے کا بھی اپنا مزہ ہے۔
”بہت کچھ کھو گیاہے“میں ایوب خاور نے جو کھویا سو کھویا،لیکن ان کے اس کھونے میں اردو شاعری نے بہت خوبصورت غزلیں،نظمیں اور گیت پا لیے ہیں۔روایتی جملے کی حد تک نہیں بلکہ واقعتاً ایوب خاور کا یہ مجموعہ اردو شاعری میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ:۱۶۔جنوری تا جون۲۰۱۱ء)