”حاصلِ مطالعہ“ کی اشاعت کے بعد سے اب تک جو نئے مضامین اور تبصرے لکھے گئے،ان سب کو یکجا کیا تو اندازہ ہوا کہ مضامین کا ایک نیا مجموعہ تیار ہو گیاہے۔مغربی دنیا میں اردو کی نئی بستیوں کے بارے میں ۱۹۹۹ءسے اب تک میں اپنے موقف پر قائم ہوں۔اس سلسلہ میں ”حاصلِ مطالعہ“ کے بعض مضامین میں جو کچھ لکھ چکا ہوں،وہی کافی تھالیکن اس دوران تین مختلف اوقات میں کی گئی تین فرمائشوں پر مجھے اسی موقف کو تین مضامین میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرنا پڑا۔کلکتہ کے روزنامہ”عکاس“نے ”یورپ میں اردو“کا آٹھ صفحات کاخاص رنگین ایڈیشن شائع کیا تو مجھ سے اس بارے میں مضمون لکھنے کا تقاضہ کیا گیا۔میرا مضمون”مغربی ممالک میں اردو ادب کی صورتحال“اسی تقاضا کے نتیجہ میں لکھا گیا۔اس میں اپنی گزشتہ تحریروں کے اہم اقتباسات کو یکجا کرکے میں نے اپنے موقف اور موجود صور ت حال کو واضح کیا۔
انگلینڈ کی ایک تقریب کے لیے مجھ سے ”یورپ کی نو آباد اردو بستیوں میں اردو کا مستقبل“کے موضوع پرمضمون کی فرمائش کی گئی۔سو دوسرا مضمون اس فرمائش پر لکھا گیا۔تیسرا مضمون اٹلی کے ایک سیمینار کے لیے لکھنا پڑا۔”مغربی ممالک میں اردوکی صورت حال“کے موضوع پر لکھے گئے اس مضمون میں اردو ادب کی بجائے اردو زبان کی مجموعی صورت حال کے بارے میں اظہارِ خیال کیا گیا۔یہ تینوں مضامین اس مجموعہ کے شروع میں شامل ہیں۔
ان مضامین کے علاوہ باقی کے بیشتر مضامینتبصرے اور تاثرات کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت نہیں لکھے گئے۔زیادہ ترجدید ادب کے لیے موصولہ کتب پر مضامین اور تبصرے لکھے گئے۔بعض احباب نے اپنی کتابوں کے لیے تاثرات مانگے ،تو ان کے لیے کچھ لکھ دیا۔بعض سینئر ادباءکے مجموعی کام کے تناظر میں تاثراتی مضمون بھی لکھے گئے۔البتہ ستیہ پال آنند کے لیے لکھی گئی تحریریں کچھ تقریباتی اور کچھ لاگ اور لگاؤسے تعلق رکھتی ہیں۔ویسے ان میں بھی ایک کتاب پر تبصرہ شامل ہے۔ سو یوں یہ میرے ملے جلے مضامین تبصروں اور تاثرات کا مجموعہ ہے۔
مابعد جدیدیت کے زیر اثر قاری کی قرات کی آڑ میں ناقد کی بالا دستی کا ڈرامہ تو اردو ادب میں نہ صرف فلاپ ہوچکا ہے بلکہ اس کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے۔تخلیق کار،فن پارے اور قاری تینوں کے درمیان ہم آہنگی سے ادب کی تفہیم و ترویج ممکن ہے۔نقد و نظر کے بارے میں ”حاصلِ مطالعہ“ کے ابتدائیہ میں لکھ چکا ہوں کہ تنقید کو تخلیق کا جزوی حصہ سمجھتا ہوں۔اس لیے نقاد کی ادب پر بالا دستی صرف ایک ڈھونگ تھا ۔مابعد جدیدیت کے نام کا یہ بھی کمال ہے کہ اس کا ایک جزوی طور پریونیورسٹی سٹوڈنٹ ایک سرقہ کی نشان دہی کرتے کرتے خود ہی فلسفی ہونے کا دعوے دار بن بیٹھا۔اس کی اصلیت کو ظاہر کرنے کے لیے مجھے چند حقائق سامنے لانا پڑے۔ کسی فلسفیانہ سوجھ بوجھ سے عاری ہو کر بھی فلسفی بننے کا خواب دیکھنے والے ”ادبی درانداز“کے لیے اب فلسفی کا لفظ ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ادب میں وہی نقاد عزت کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے جو ادب کی تفہیم میںسچے اور کھرے تخلیق کاروں کی تکذیب کرنے کی بجائے نیک نیتی کے ساتھ اور اپنی تنقیدی صلاحیت کے مطابق ادبی تخلیقات کے باطن تک رسائی کی کاوش کریں گے ۔
اردو میں نقاد کہلانے کے لیے جس قسم کی تنقید لکھی جا رہی ہے،میں اس قطار میں شمار نہیں ہوتا ۔ میرے جملہ مضامینتبصرے اور تاثرات ایک قاری کے تاثرات ہیں،ایسا قاری جو خود تخلیق کار بھی ہے۔ کسی کتاب یا موضوع پر لکھتے وقت جو کچھ میرے ذہن میں آتااور دل اسے جس حد تک قبول کرتامیں ان تاثرات کو لکھتا چلا گیا۔قارئین پرکسی درآمدی نظریے یافلسفے کا رعب جھاڑنا میرامطمح نظر نہیں رہا۔بس اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق جوکچھ سمجھا اسے مناسب طور پر بیان کردیا۔ اسی لیے میں نے اپنے اس مجموعہ کا نام ”تاثرات“ رکھا ہے۔صرف یہی کتاب نہیں،میری ساری تنقیدی مضامین کی کتابوں میں درج میرے سارے تنقیدی مضامین کو میرے تاثرات ہی سمجھا جانا چاہیے۔
ایک قاری کے تاثرات۔۔۔ایک تخلیق کار کے تاثرات!میرے یہ تاثرات متعلقہ موضوعات اور کتابوں کے علاوہ خود میرے علمی و ادبی ذوق کی نشان دہی کرتے ہیں۔یہ اچھے ہیں یا برے۔۔۔یا اوسط درجے کے؟ میں اتنا کچھ ہی ہوں۔اور میں جتنا ہوں اتنا ہی دِکھنا چاہتا ہوں۔
حیدر قریشی(جرمنی سے)
۵اگست ۲۰۱۴ء