اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ مکہ میں بنوامیہ کی حکومت کے آخری ایام میں ایک مجلس منعقد ہوئی تھی، اس میں خلیفہ کے تعین اور انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا تھا تو منصور نے جو اس مجلس میں موجود تھا، محمد بن عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا تھا، سب نے اس رائے سے اتفاق کرکے محمد بن عبداللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، اس بیعت میں منصور بھی شریک تھا، یعنی منصور، محمد بن عبداللہ حسنی کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرچکا تھا۔
سفاح نے اپنے عہد خلافت میں علویوں کو خاموش رکھا اور انعام واکرام اور بذل مال سے ان کو خوش رکھ کر مخالفت اور خروج پر آمادہ نہ ہونے دیا، منصور جب خلیفہ ہوا تو اس نے سفاح کے زمانے کی سخاوت کو باقی نہ رکھا اور سب سے زیادہ محمد بن عبداللہ کے باپ عبداللہ بن حسن جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ وہ سفاح کے پاس آیا تھا اور سفاح نے اس کو بہت سا مال وزر دے کر خوش وخرم واپس کیا تھا۔
جب منصور خلیفہ ہوا تو عبداللہ بن حسن نے اپنے بیٹے محمد اور ابراہیم کو اس خیال سے روپوش کردیا کہ کہیں منصور ان کو قتل نہ کرادے، اس محمد بن عبداللہ کو جس کے ہاتھ پر منصور نے بیعت کی تھی، (محمد مہدی کے نام سے پکارا جاتا ہے، لہٰذا آئیندہ اس کا نام محمد مہدی ہی لکھا جائے گا۔)
سنہ ۱۳۶ ھ میں جب منصور حج کرنے گیا تھا اور اس نے وہاں سفاح کے مرنے کی خبر سنی تھی تو سب سے پہلے اس نے محمد مہدی کو دریافت کیا، اس وقت وہ وہاں موجود نہ تھے، مگر لوگوں کو شبہ پیدا ہو گیا، اس لیے وہ روپوش ہو گئے، ان کے ساتھ ان کے بھائی ابراہیم بھی روپوش رہے، منصور خلیفہ ہونے کے بعد برابر لوگوں سے محمد مہدی کا حال دریافت کرتا رہتا تھا، اس تفحص وتجسس میں اس نے اس قدر مبالغہ کیا کہ ہر شخص کو یہ حال معلوم ہو گیا کہ منصور کو محمد مہدی کی بڑی تلاش ہے، عبداللہ بن حسن مثنیٰ کو جب منصور کی طرف سے مجبور کیا گیا کہ اپنے بیٹے کو حاضر کرو تو انہوں نے منصور کے چچا سلیمان بن علی سے مشورہ کیا، سلیمان نے کہا کہ اگر منصور درگزر کرنے کا عادی ہوتا تو اپنے چچا سے درگزر کرتا، یعنی عبداللہ بن علی پر سختی و تشدد روا نہ رکھتا، عبداللہ بن حسن یہ سن کر اپنے بیٹوں کے روپوش رکھنے میں اور بھی زیادہ مبالغہ کرنے لگے، آخر منصور نے حجاز کے چپے چپے میں اپنے جاسوس پھیلا دیئے اور جعلی خطوط لکھ کر عبداللہ بن حسن کے پاس بھجوائے کہ کسی طرح مہدی کا پتہ چل جائے۔
محمد مہدی اور ان کے بھائی ابراہیم دونوں حجاز میں چھپتے پھرے، پھر منصور صرف انہیں کے تجسس و تلاش میں خود حج کے بہانے مکہ میں پہنچا، یہ دونوں بھائی حجاز سے بصرہ میں آکر بنوراہب اور بنومرہ میں مقیم ہوئے، منصور کو اس کا پتہ لگا تو وہ سیدھا بصرہ میں آیا، لیکن اس کے آنے سے پیشتر محمد مہدی اور ابراہیم بصرہ چھوڑ چکے تھے، بصرہ سے یہ دونوں عدن چلے گئے، منصور بصرہ سے دارالخلافہ کو روانہ ہو گیا، جب عدن میں بھی ان دونوں بھائیوں کو اطمینان نہ ہوا تو سندھ چلے گئے، چند روز سندھ میں رہ کر کوفہ میں آکر روپوش رہے، پھر کوفہ سے مدینہ منورہ چلے آئے۔
۱۴۰ھ میں منصور پھر حج کو آیا، یہ دونوں بھائی بھی حج کے لیے مکہ آئے، ابراہیم نے قصد کیا کہ منصور کی زندگی کا خاتمہ کر دیں، مگر ان کے بھائی محمد مہدی نے منع کر دیا، منصور کو اس مرتبہ بھی ان کا کوئی پتہ نہ چلا، اس نے ان کے باپ عبداللہ بن حسن مثنیٰ کو بلا کو دونوں بیٹوں کے حاضر کرنے کے لیے مجبور کیا، جب انہوں نے لاعلمی بیان کی تو منصور نے ان کو قید کرنا چاہا، مگر زیاد عامل مدینہ نے ان کی ضمانت دی، تب وہ چھوٹے، چونکہ زیاد عامل مدینہ نے عبداللہ بن حسن کی ضمانت دی تھی اس لیے منصور اس سے بھی بدگمان ہو گیا اور دارالخلافہ میں واپس آکر محمد بن خالد بن عبداللہ قسری کو مدینہ کا عامل بنا کر بھیجا اور زیاد کو مع اس کے دوستوں کے گرفتار کراکر بلوایا اور قید کر دیا۔
محمد بن خالد نے مدینہ کا عامل ہو کر محمد مہدی کی تلاش وجستجو میں بڑی کوشش کی اور بیت المال کا تمام روپیہ اسی کوشش میں صرف کر دیا، منصور نے محمد بن خالد کے اسراف اور ناکامی پر اس کو بھی معزول کیا اور رباح بن عثمان بن حیان مزنی کو مدینہ کا عامل بنایا، رباح نے مدینہ میں پہنچ کر عبداللہ بن حسن کو بہت تنگ کیا اور تمام مدینہ میں ہلچل مچادی اور مندرجہ ذیل علویوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا۔
(۱) عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے باپ)
(۲) ابراہیم بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچا)
(۳) جعفر بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچا)
(۴) سلیمان بن داؤد بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچا۔
(۵) عبداللہ بن داؤد بن حسن بن حسن بن مثنیٰ بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچازاد بھائی)
(۶) محمد بن ابراہیم بن حسن بن علی رضی اللہ ع
نھما (محمد مہدی کے چچازاد بھائی)
(۷) اسماعیل بن ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچازاد بھائی)
(۸) اسحاق بن ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچازاد بھائی)
(۹) عباس بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچا)
(۱۰) موسیٰ بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے حقیقی بھائی)
(۱۱) علی بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے چچا)
ان لوگوں کو گرفتار کر کے منصور کو اطلاع دی گئی تو اس نے لکھا کہ ان لوگوں کے ساتھ محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنھما کو بھی گرفتار کرلو، کیونکہ عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما کی ماں ایک ہی ہے، یعنی یہ دونوں فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنھما کے بیٹے ہیں، چنانچہ رباح نے اس حکم کی بھی تعمیل کی اور محمد بن عبداللہ بن عمرو کو قید کر لیا۔
انہیں ایام میں گورنر مصر نے علی بن محمد بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما (محمد مہدی کے بیٹے) کو گرفتار کر کے منصور کے پاس بھیجا، منصور نے ان کو بھی قید کر دیا، یہ اپنے باپ کی طرف سے مصر میں دعوت و تبلیغ کے لیے بھیجے گئے تھے۔
==================