فرقہ راوندیہ کو شیعوں میں شمار کیا جاتا ہے، یہ در حقیقت ایران وخراسان کے جاہل لوگوں کا ایک گروہ تھا جو علاقہ راوند میں رہتا اور ان لوگوں میں سے نکلا تھا جن کو ابومسلم خراسانی نے اپنے ساتھ شامل کیا تھا، ابومسلم نے جو جماعت تیار کی تھی اس کو مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا، بلکہ جس طرح ممکن ہوتا تھا ان کو سیاسی اغراض کے لیے آمادہ و مستعد کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، یہ گروہ جس کو راوندیہ کہا جاتا ہے، تناسخ اور حلول کا قائل تھا۔ (اسے آواگون کا نظریہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک باطل نظریہ ہے، جس کے مطابق انسان بار بار جنم لیتا ہے۔ عصر حاضر میں زیادہ تر یہ عقیدہ ہندوﺅں کے مذہب کا حصہ ہے۔)
ان کا عقیدہ تھا کہ خدائے تعالیٰ نے منصور میں حلول کیا ہے، چنانچہ یہ لوگ خلیفہ منصور کو اللہ تعالیٰ سمجھ کر اس کی زیارت کرتے تھے اور منصور کے درشن کرنے کو عبادت جانتے تھے، ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ آدم علیہ السلام کی روح نے عثمان بن نہیک میں اور جبرائیل نے ہثیم بن معاویہ میں حلول کیا ہے، یہ لوگ دارالخلافہ میں آکر اپنے اعمال وعقائد ناشدنی کا اعلان کرنے لگے، سو منصور نے ان میں سے دو سو آدمیوں کو پکڑ کر قید کر دیا، ان کی پانچ چھ سو تعداد اور موجود تھی، ان کو اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی اس گرفتاری سے اشتعال پیدا ہوا اور قیدخانہ پر حملہ کر کے اپنے بھائیوں کو قید سے چھڑا لیا اور پھر منصور کے محل کا محاصرہ کر لیا، تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ منصور کو اللہ تعالیٰ کہتے تھے اور پھر اس اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف آمادۂ جنگ تھے۔
اس موقع پر یہ بات قابل تذکرہ ہے کہ یزید بن ہبیرہ کے ساتھیوں میں معن بن زائدہ بھی تھا اور جب ابن ہبیرہ کی لڑائیاں عباسیوں سے ہوئی ہیں تو معن بن زائدہ ابن ہبیرہ کے نامور سرداروں میں سے ایک تھا، معن بن زائدہ ابن ہبیرہ کے بعد دارالخلافہ ہاشمیہ میں آکر روپوش تھا اور منصور اس کی تلاش و جستجو میں تھا کہ معن بن زائدہ کو گرفتار کراکر قتل کرے، ان بدمذہب راوندیوں نے جب منصور کے محل کا محاصرہ کیا تو منصور پیادہ پا اپنے محل سے نکل آیا اور بلوائیوں کو مارنے اور ہٹانے لگا، منصور کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے اور حقیقت یہ تھی کہ اس وقت دارالخلافہ میں کوئی جمعیت اور طاقت ایسی موجود نہ تھی کہ ان بلوائیوں کی طاقت کا مقابلہ کرسکتی، منصور کے لیے یہ وقت نہایت ہی نازک تھا اور قریب تھا کہ دارالخلافہ اور اس کے ساتھ ہی خلافت اور منصور اپنی جان سے جائیں اور راوندیوں کا قبضہ ہو جائے، اس خطرناک حالت سے فائدہ اٹھانے میں معن بن زائدہ نے کوتاہی نہیں کی، وہ فوراً منصور کے پاس پہنچ گیا اور جاتے ہی بلوائیوں کو مارنے اور ہٹانے میں مصروف ہو گیا، اتنے میں اور لوگ بھی آکر منصور کے گرد جمع ہونے لگے، لیکن معن بن زائدہ کے حملے بہت ہی زبردست اور کارگر ثابت ہو رہے تھے اور منصور اپنی آنکھ سے اس اجنبی شخص کی حیرت انگیز بہادری کو دیکھ رہا تھا، آخر معن بن زائدہ نے اس لڑائی میں سپہ سالاری کے فرائض خود بخود ادا کرنے شروع کر دیئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ سخت و شدید زور آزمائی کے بعد ان بلوائیوں کو شکست ہوئی، شہر کے آدمی بھی سب اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام بلوائیوں کو قتل کر کے رکھ دیا۔
اس ہنگامے کے بعد منصور نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے جس نے اپنی پامردی و بہادری کے ذریعہ اس فتنہ کو فرو کرنے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے؟ تب اس کو معلوم ہوا کہ یہ معن بن زائدہ ہے، منصور نے اس کو امان دے دی اور اس کے سابق جرموں کو معاف کر کے اس کی عزت ومرتبہ کو بڑھا دیا۔
ابوداؤد خالد بن ابراہیم ذہلی بلخ کا عامل اور آج کل خراسان کا گورنر تھا، اسی عرصہ یعنی ۱۴۰ھ میں اس کے لشکر میں بغاوت پھوٹی اور اہل لشکر نے مکان کامحاصرہ کر لیا، ابو داود مکان کی چھت پران باغیوں کے دیکھنے کے لیے چڑھا، اتفاق سے پاؤں پھسل کر گر پڑا اور اسی دن مر گیا، اس کے بعد اس کے سپہ سالار حصام نے اس بغاوت کو فرو کیا اور خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر منصور کو اطلاع دی، منصور نے عبدالجبار بن عبدالرحمن کو گورنر خراسان بنا کر بھیجا۔
==================