ابومسلم کے قتل سے فارغ ہو کر بظاہر منصور کو اطمینان حاصل ہو چکا تھا، لیکن اس کے بعد بھی منصور کے لیے مشکلات کا سلسلہ برابر جاری رہا، ابو مسلم کے ہمراہیوں میں ایک مجوسی فیروز نامی جو سنباد کے نام سے مشہور تھا، وہ مسلمان ہو کر ابومسلم کی فوج میں شامل تھا، ابومسلم کے قتل کے بعد اس نے ابومسلم کے خون کا معاوضہ طلب کرنے کے لیے خروج کیا اور کوہستان کے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔
سنباد نے نیشاپور اور رے پر قبضہ کر کے اس تمام مال واسباب کو جو ابومسلم حج کے لیے روانہ ہوتے وقت رے اور نیشاپور میں چھوڑ گیا تھا قبضہ کیا، سنباد نے لوگوں کے مال و اسباب کو لوٹا اور ان کو گرفتار کر کے باندی غلام بنایا اور مرتد ہو کر اعلان کیا کہ میں خانہ کعبہ کو منہدم کرنے جاتا ہوں، نومسلم ایرانیوں کے لیے اس قدر تحریک کافی تھی، ان میں جو لوگ مذہب اسلام سے واقف نہ ہوئے تھے، وہ یہ دیکھ کر کہ ہماری ہی قوم و ملک کا ایک شخص سلطنت اسلامی کے خلاف اٹھا ہے، اس کے شریک ہو گئے۔
منصور نے جب اس فتنہ کا حال سنا تو اس نے سنباد کی سرکوبی کے لیے جمہور بن مرار عجلی کو مامور کیا، ہمدان ورے کے درمیان لڑائی ہوئی، جمہور نے سنباد کو شکست دی، قریباً سات ہزار آدمی سنباد کے ہمراہیوں میں سے مارے گئے، سنباد نے فرار ہو کر طبرستان میں پناہ لی، وہاں عامل طبرستان کے ایک خادم نے سنباد کو قتل کر دیا، منصور نے یہ خبر سن کر عامل طبرستان کو لکھا کہ سنباد کا مال واسباب ہمارے پاس بھیج دو، اس نے مال واسباب سے انکار کر دیا، منصور نے عامل طبرستان کی گوشمالی کے لیے فوج بھیجی، عامل طبرستان ویلم کی طرف بھاگ گیا۔
ادھر جمہور نے جب سنباد کو شکست دی تھی تو اس کے بہت سے مال و اسباب اور قریباًاس تمام خزانہ پر اس کا قبضہ ہو گیا تھا، ابومسلم کا خزانہ بھی اس کے قبضہ میں آگیا تھا، اس خزانے اور مال واسباب کو جمہور نے منصور کے پاس نہ بھیجا اور رے میں جاکر قلعہ بندی کرکے منصور کی خلع خلافت اور بغاوت کا اعلان کر دیا۔
منصور نے جمہور کے مقابلہ پر محمد بن اشعث کو فوج دے کر روانہ کیا، جمہور یہ سن کر رے سے اصفہان کی طرف چلا گیا، جمہور اصفہان پر محمد بن اشعث رے پر قابض ہو گیا، اس کے بعد محمد نے اصفحان پر چڑھائی کی، جمہور نے مقابلہ کیا، سخت لڑائی کے بعد جمہور شکست کھا کر آذربائیجان کی طرف بھاگا، وہاں جمہور کے ہمراہیوں میں سے کسی نے اس کو قتل کر کے اس کا سر منصور کے پاس بھیج دیا۔ یہ ۱۳۸ھ کا واقعہ ہے۔
۱۳۹ ھ میں منصور نے اپنے چچا سلیمان کو حکومت بصرہ سے معزول کرکے اپنے پاس بلایا اور لکھا کہ عبداللہ بن علی کو جو ابومسلم سے شکست کھا کر بصرہ میں اپنے بھائی سلیمان کے پاس چلا آیا تھا، امان دے کر اپنے ہمراہ میرے پاس لیتے آؤ، جب عبداللہ بن علی کو سلیمان نے دربار میں حاضر کیا تو منصور نے اس کو قید کر دیا۔ (بعد میں قتل کرادیا تھا۔)
==================