جب عبداللہ بن علی کو شکست ہوئی اور ابومسلم نے اس کے لشکرگاہ کو لوٹ لیا اور مال غنیمت خوب ہاتھ آیا تو منصور نے اس فتح کا حال سن کر اپنے خادم ابوخصیب کو مال غنیمت کی فہرست تیار کرنے کے لیے روانہ کیا، ابو مسلم کواس بات سے سخت غصہ آیا کہ منصور نے میرا اعتبار نہ کیا اور اپنا آدمی فہرست مرتب کرنے کیلیے بھیجا، ابومسلم کی اس ناراضی و ناخوشی کی اطلاع جب منصور کو پہنچی تو اس کو یہ فکر ہوئی کہ کہیں ابومسلم ناراض ہو کر خراسان کو نہ چلا جائے، چنانچہ اس نے مصر و شام کی سند گورنری لکھ کر ابومسلم کے پاس بھیج دی، ابومسلم کو اس سے اور بھی زیادہ رنج ہوا کہ منصور مجھ کو خراسان سے جدا کر کے بے دست وپا کرنا چاہتا ہے، چنانچہ ابومسلم جزیرہ سے نکل کر خراسان کی طرف روانہ ہوگیا، یہ سن کر منصور انبار سے مدائن کی طرف روانہ ہوا اور ابومسلم کو اپنے پاس حاضر ہونے کے لیے بلایا، ابو مسلم نے آنے سے انکار کر کے لکھ بھیجا کہ:
’’میں دور ہی سے آپ کی اطاعت کروں گا، آپ کے تمام دشمنوں کو میں نے مغلوب کر دیا ہے، اب جب کہ آپ کے خطرات دور ہو گئے ہیں تو آپ کو اب میری ضرورت بھی باقی نہیں رہی، اگر آپ مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیں گے تو میں آپ کی اطاعت سے باہر نہ ہوں گا اور اپنی بیعت پر قائم رہوں گا، لیکن اگر آپ میرے درپے رہے تو میں آپ کی خلع خلافت کا اعلان کر کے آپ کی مخالفت پر آمادہ ہو جاؤں گا۔
اس خط کو پڑھ کر منصور نے نہایت نرمی اور محبت کے لہجہ میں ایک خط لکھا کہ
’’ہم کو تمہاری وفاداری اور اطاعت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، تم بڑے کار گزار اور مستحق انعام ہو، شیطان نے تمہارے دل میں وسوسے ڈال دیئے ہیں، تم ان وسوسوں سے اپنے آپ کو بچاؤ اور ہمارے پاس چلے آؤ۔
یہ خط منصور نے اپنے آزاد کردہ غلام ابوحمید کے ہاتھ روانہ کیا اور ان کو تاکید کی کہ منت و سماجت سے جس طرح ممکن ہو، ابومسلم کو میرے پاس آنے کی ترغیب دینا اور اگر وہ کسی طرح نہ مانے تو پھر میرے غصہ سے اس کو ڈرانا، یہ خط جب ابومسلم کے پاس پہنچا تو اس نے مالک ہثیم سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ تم ہرگز منصور کے پاس نہ جاؤ وہ تم کو قتل کر دے گا، لیکن ابوداؤد خالد بن ابراہیم کو خراسان کی گورنری کا لالچ دےکر منصور نے بذریعہ خط پہلے ہی اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ ابومسلم کو جس طرح ممکن ہو میرے پاس آنے پر آمادہ کر دو، ابوداؤد کے مشورے سے ابومسلم منصور کے پاس جانے پر آمادہ ہو گیا، مگر اس نے پھر بھی اس احتیاط کو ضروری سمجھا کہ اپنے وزیر ابواسحٰق خالد بن عثمان کو اول منصور کے پاس بھیج کر وہاں کے حالات سے زیادہ واقفیت حاصل کرے۔
ابواسحاق پر ابومسلم کو بہت اعتماد تھا، چنانچہ اول ابواسحاق کو روانہ کیا گیا، ابواسحاق جب دربار خلافت کے پاس پہنچا تو تمام سرداران بنوہاشم اور اراکین دولت استقبال کو آئے، منصور نے حد سے زیادہ تکریم و محبت کا برتاؤ کیا اور اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اسحاق کو اپنی جانب مائل کر کے کہا کہ تم ابومسلم کو خراسان جانے سے روک کر اول میرے پاس آنے پر آمادہ کر دو تو میں تم کو خراسان کی حکومت اس کام کے صلہ میں دے دوں گا، ابواسحاق یہ سن کر آمادہ ہو گیا اور رخصت ہو کر ابومسلم کے پاس آیا اور اس کو منصور کے پاس جانے پر آمادہ کر لیا۔
چنانچہ ابومسلم اپنے لشکر کو حلوان میں مالک بن ہثیم کی افسری میں چھوڑ کر تین ہزار فوج کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوا، جب ابومسلم مدائن کے قریب پہنچا تو ابومسلم کے پاس منصور کے اشارے کے موافق ایک شخص پہنچا اور ملاقات کرنے کے بعد ابومسلم سے کہا کہ آپ منصور سے میری سفارش کر دیں کہ وہ مجھ کو کسکر کی حکومت دے دے، نیز یہ کہ وزیرالسلطنت ابوایوب سے منصور آج کل سخت ناراض ہے، آپ ابوایوب کی بھی سفارش کر دیں، ابومسلم یہ سن کر خوش ہو گیا اور اس کے دل سے رہے سہے خطرات سب دور ہو گئے۔
ابو مسلم دربار میں عزت و احترام کے ساتھ داخل ہوا اور عزت کے ساتھ رخصت ہو کر قیام گاہ پر آرام کرنے گیا، دوسرے روز جب دربار میں آیا تو منصور نے پہلے سے عثمان بن نہیک، شبیب بن رواح، ابوحنیفہ، حرب بن قیس وغیرہ چند شخصوں کو پس پردہ چھپا کر بٹھا دیا اور حکم دے دیا تھا کہ جب میں اپنے ہاتھ پر ہاتھ ماروں تو تم نکل کر فوراً ابومسلم کو قتل کر ڈالنا، چنانچہ ابومسلم دربار میں حاضر ہوا، خلیفہ منصور نے باتوں میں اس سے ان دو تلواروں کا حال دریافت کیا جو ابومسلم کو عبداللہ بن علی سے ملی تھیں، ابومسلم اس وقت انہیں تلواروں میں سے ایک کو اپنی کمر سے لگائے ہوئے تھا، اس نے کہا کہ ایک تو یہ موجود ہے، منصور نے کہا ذرا میں بھی دیکھوں، ابومسلم نے فوراً خلیفہ منصور کے ہاتھ میں تلوار دےدی، وہ تھوڑی دیر تک اس کو دیکھتا رہا، پھر اس کو اپنے زانوں کے نیچے رکھ کر ابومسلم سے اس کی حرکات کی شکایت کرنے لگا، پھر سلیمان بن کثیر کے قتل کا ذکر کیا اور کہا کہ تو نے اس کو کیوں قتل کیا، حالانکہ وہ اس وقت
سے ہمارا خیر خواہ تھا جب کہ تو اس کام میں شریک بھی نہ ہوا تھا۔؟
ابو مسلم اول خوشامدانہ اور عاجزانہ لہجہ میں معذرت کرتا رہا، لیکن دم بدم منصور کے طیش و غضب کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر جب اس کو یقین ہو گیا کہ آج میری خیر نہیں ہے تو اس نے جرأت سے جواب دیا کہ جو آپ کا جی چاہے کیجئے، میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، منصور نے ابومسلم کو گالیاں دیں اور ہاتھ پر ہاتھ مارا، تالی کے
بجتے ہی عثمان بن نہیک وغیرہ نے نکل کر ابومسلم پر وار کئے اور اس کا کام تمام کر دیا۔ یہ واقعہ ۲۵ شعبان ۱۳۷ھ کا ہے۔
ابو مسلم کے مارے جانے کے بعد وزیرالسلطنت نے باہر آکر ابومسلم کے ہمراہیوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ امیر اس وقت امیرالمومنین کی خدمت میں رہیں گے، تم لوگ واپس چلے جاؤ، اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ نے دربار خلافت میں حاضر ہو کر ابومسلم کو دریافت کیا، جب اس کے قتل کا حال معلوم ہوا تو اس کی زبان سے انااللہ وانا الیہ راجعون نکل گیا، یہ بات منصور کو ناگوار گزری اور اس نے کہا کہ ابومسلم سے زیادہ کوئی تمہارا دشمن نہ تھا، پھر منصور نے جعفر بن حنظلہ کو بلوایا اور ابومسلم کے قتل کی نسبت مشورہ کیا، جعفر نے اس کے قتل کی رائے دی، منصور نے کہا: اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر دے، اس کے بعد ابومسلم کی لاش کی طرف اشارہ کیا، جعفر نے ابومسلم کی لاش دیکھتے ہی کہا کہ ’’امیرالمومین آج سے آپ کی خلافت شمار کی جائے گی، منصور مسکرا کر خاموش ہو گیا۔
ابونصر مالک بن ہثیم جس کو ابومسلم اپنا لشکر اور مال سپرد کر آیا تھا، حلوان سے بقصد خراسان ہمدان کی طرف روانہ ہو گیا، پھر منصور کی خدمت میں واپس چلا آیا، منصور نے اس کو ملامت کی کہ تو نے ابومسلم کو میرے پاس آنے کے خلاف مشورہ دیا، اس نے کہا کہ جب تک ابو مسلم کے پاس تھا، اس کو نیک مشورہ دیا تھا، اب آپ کے پاس آگیا ہوں تو آپ کی بہتری کے لیے کوشاں رہوں گا، منصور نے اس کو موصل کی حکومت پر بھیج دیا۔
==================