منصور کے چچا عبداللہ بن علی کو عبداللہ سفاح نے خراسانی وشامی لشکر کے ساتھ اپنی موت سے پہلے صائفہ کی طرف روانہ کر دیا تھا، محرم ۱۳۷ھ میں منصور انبار میں پہنچ کر تخت نشین خلافت ہوا تھا، عیسیٰ بن موسیٰ نے سفاح کی وفات کی عبداللہ بن علی کو بھی اطلاع دی تھی اور لکھا تھا کہ سفاح نے اپنے بعد منصور کی خلافت کے لیے وصیت کی ہے، عبداللہ بن علی نے لوگوں کو جمع کر کے کہا کہ عبداللہ سفاح نے جب مہم حران کے لیے فوج روانہ کرنی چاہی تھی تو کسی کو اس طرف جانے کی ہمت نہ ہوئی تو سفاح نے کہا کہ جو شخص اس مہم پر جائے گا وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا، چنانچہ اس مہم پر میں روانہ ہوا اور میں نے ہی مروان بن محمد اور دوسرے اموی سرداروں کو شکست دےکر اس مہم میں کامیابی حاصل کی، سب نے اس کی تصدیق کی اور عبداللہ بن علی کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
عبداللہ بن علی نے مقام دلوک سے مراجعت کر کے مقام حران میں مقاتل بن حکیم کا محاصرہ کر لیا، چالیس روز تک محاصرہ کئے رہا، اثناء محاصرہ میں اہل خراسان سے مشتبہ ہو کر ان میں سے بہت سے آدمیوں کو قتل کر دیا اور حمید بن قحطبہ کو والیٔ حلب (موجودہ شام کا ایک صوبہ) مقرر کر کے ایک خط دے کر روانہ کیا، جوزفر بن عاصم گورنر حلب کے نام تھا، اس خط میں لکھا تھا کہ حمید کو پہنچتے ہی قتل کر ڈالنا، حمید نے راستے میں خط کھول کر پڑھ لیا اور بجائے حلب کے عراق کی طرف چل دیا۔
ادھر منصور جب انبار (موجودہ عراق کا ایک صوبہ) میں پہنچا ہے تو ابومسلم بھی وہاں پہلے پہنچ چکا تھا، ابومسلم نے منصور کے ہاتھ پر بیعت کی اور منصور نے اس کے ساتھ عزت افزائی اور دلجمعی کا برتاو کیا، اسی اثناء میں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن علی باغی ہو گیا ہے، منصور نے ابومسلم سے کہا کہ مجھ کو عبداللہ بن علی کی طرف سے بہت خطرہ ہے، ابومسلم تو ایسے واقعات کا خواہش مند ہی تھا، فوراً آمادہ ہو گیا کہ اس طرح منصور کو بھی براہ راست احسان مند بنایا جا سکے گا، چنانچہ ابومسلم کو عبداللہ بن علی کی سرکوبی پر مامور کیا گیا۔
ابن قحطبہ جو عبداللہ بن علی سے ناراض عراق کی جانب آرہا تھا وہ ابومسلم سے آملا، عبداللہ بن علی نے مقاتل بن حکیم کو امان دےدی اور مقاتل نے حران عبداللہ بن علی کے سپرد کر دیا، عبداللہ بن علی نے مقاتل کو مع ایک خط کے عثمان بن عبدالاعلیٰ حاکم رقہ (موجودہ شام کا سنی اکثریتی صوبہ) کے پاس بھیجا، عثمان نے مقاتل کو پہنچتے ہی قتل کر دیا اور اس کے دونوں لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔
منصور نے ابومسلم کو روانہ کرنے کے بعد محمد بن صول کو آذربائیجان سے طلب کر کے عبداللہ بن علی کے پاس دھوکا دینے کی غرض سے روانہ کیا، محمد بن صول نے عبداللہ بن علی کے پاس پہنچ کر یہ کہا کہ میں نے سفاح سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ میرے بعد میرا جانشین میرا چچا عبداللہ ہو گا، عبداللہ بن علی بولا تو جھوٹا ہے، میں تیرے فریب کو خوب سمجھ گیا ہوں، یہ کہہ کر اس کی گردن اڑا دی، اس کے بعد عبداللہ بن علی نے حران سے روانہ ہو کر نصیبین میں آکر قیام کیا اور خندق کھود کر مورچے قائم کئے۔
منصور نے ابومسلم کو روانہ کرنے سے پہلے حسن بن قحطبہ والی آرمینیا کو بھی لکھ دیا تھا کہ آکر ابومسلم کی شرکت اختیار کرے، چنانچہ حسن بن قحطبہ بھی موصل (موجودہ عراق کا ایک صوبہ ہے) کے مقام پر ابومسلم سے آملا تھا، ابومسلم مع اپنے لشکر کے جب نصیبین کے قریب پہنچا تو نصیبین کا رخ چھوڑ کر شام کے راستے پر پڑاؤ ڈالا اور یہ مشہور کیا کہ مجھ کو عبداللہ بن علی سے کوئی واسطہ نہیں، میں تو شام کی گورنری پر مامور کیا گیا ہوں اور شام کو جا رہا ہوں، عبداللہ بن علی کے ہمراہ جو شامی لوگ تھے وہ یہ سن کر گھبرائے اور انہوں نے عبداللہ بن علی سے کہا کہ ہمارے اہل و عیال ابومسلم کے پنجۂ ظلم میں گرفتار ہوجائیں گے، بہتر یہ ہے کہ ہم اس کو شام کی طرف جانے سے روکیں، عبداللہ بن علی نے ہر چند سمجھایا کہ وہ ہمارے ہی مقابلہ کو آیا ہے، شام میں نہ جائے گا لیکن کوئی نہ مانا، آخر عبداللہ بن علی نے اس مقام سے کوچ کیا، جب عبداللہ بن علی اپنے مقام کو چھوڑ کر شام کی طرف روانہ ہوا تو ابومسلم فوراً عبداللہ بن علی کی بہترین لشکر گاہ میں آکر مقیم ہو گیا اور عبداللہ بن علی کو لوٹ کر اس مقام پر قیام کرنا پڑا، جس میں پہلے ابومسلم مقیم تھا، اس طرح ابومسلم نے بہترین لشکرگاہ حاصل کر لی۔
اب دونوں لشکروں میں لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا، کئی مہینے تک لڑائی ہوتی رہی، آخر ۷ جمادی الثانی یوم چہار شنبہ ۱۳۷ھ کو عبداللہ بن علی نے شکست کھائی اور ابومسلم نے فتح پاکر فتح کا بشارت نامہ منصور کے پاس بھیجا، عبداللہ بن علی نے اس میدان سے فرار ہو کر اپنے بھائی سلیمان بن علی کے پاس جاکر بصرہ میں پناہ لی اور ایک مدت تک وہاں چھپا رہا۔
==================