مامون کی ولی عہدی:
گزشتہ اقساط میں ذکر ہو چکا ہے کہ ہارون الرشید نے ۱۷۵ھ میں اپنے بیٹے امین بن زبیدہ خاتون کو اپنا ولی عہد بنایا تھا، اس وقت امین اور مامون دونوں کی عمر پانچ پانچ سال کی تھی، ایسی چھوٹی عمر میں آج تک کوئی ولی عہد کسی مسلمان فرمانروا نے نہیں بنایا تھا، اب ہارون نے ۱۸۲ھ میں اپنے بیٹے مامون بن مراجل کو جبکہ اس کی عمر بارہ سال کی تھی، امین کے بعد ولی عہد بنایا، یعنی لوگوں سے اس بات کی بیعت لی کہ امین کے بعد مامون تخت خلافت کا مالک ہو گا۔
مامون کا اصل نام عبداللہ اور امین کا اصل نام محمد تھا، جب محمد کو ۱۷۵ھ میں ولی عہد بنایا تھا تو اس کو امین کا خطاب دیا تھا اور اب عبداللہ کو ولی عہد دوم مقرر کیا تو اس کو مامون کا خطاب دیا اور خراسان نیز اس کے ملحقہ علاقہ یعنی ہمدان تک کی سند گورنری مامون کو عطا کر کے عیسیٰ بن علی گورنر خراسان کو طلب کیا، جب وہ آ گیا تو مامون کی طرف سے اس کو خراسان کی حکومت کی سند دے کر خراسان کی جانب واپس کر دیا۔ اسی سال یعنی ۲۷۔ رجب ۱۸۲ھ کو امام ابو یوسف نے جن کا نام یعقوب تھا اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد اور بغداد کے رئیس القضاۃ تھے وفات پائی۔
وہب بن عبداللہ نسائی اور حمزہ خارجی کا خروج:
جب عیسیٰ بن علی، مامون الرشید کی تقریب ولی عہدی کے سلسلہ میں بغداد کی طرف آیا تو ابو خصیب وہب بن عبداللہ بن نسائی نے عَلم بغاوت بلند کرکے خراسان میں لوٹ مار شروع کر دی، جب عیسیٰ بن علی نے واپس جاکر اس کا تعاقب کیا تو وہب نے خائف ہوکر امان طلب کی، چنانچہ اس کو امان دے دی گئی اور وہ خاموش ہوکر بیٹھ گیا، اس واقعہ کے بعد ہی یہ خبر مشہور ہوئی کہ بلاد باد غیس میں حمزہ بن اترک خارجی نے خروج کیا ہے اور شہروں پر قبضہ کرتا چلا جاتا ہے۔
ہرات میں ان دنوں عمرویہ بن یزید ازدی عامل تھا، اس نے چھ ہزار سواروں کی جمعیت لےکر حمزہ پر حملہ کیا، حمزہ نے اس کو شکست دے کر اس کے بہت سے سواروں کو قتل کر ڈالا اور اسی ہنگامہ میں عمرویہ بھی کچل کر مر گیا، یہ سن کر علی بن عیسیٰ نے اپنے لڑکے حسن بن علی کو دس ہزار فوج دے کر حمزہ کے مقابلہ کو روانہ کیا، مگر حسن نے حمزہ کا مقابلہ نہ کیا، تب علی بن عیسیٰ نے اپنے دوسرے بیٹے عیسیٰ بن علی کو مامور کیا، مقابلہ ہوا اور حمزہ نے عیسیٰ بن علی کو شکست دے کر بھگا دیا، علی بن عیسیٰ نے عیسیٰ بن علی کو دوبارہ تازہ دم فوج دے کر پھر حمزہ کے مقابلہ پر بھیجا۔ مقام نیشاپور میں معرکہ کار زار گرم ہوا۔
اس معرکہ میں حمزہ شکست کھا کر قہستان کی طرف بھاگا، دس ہزار آدمی حمزہ کے میدان جنگ میں کام آئے اور صرف چالیس آدمی جان بچا کر حمزہ کے ساتھ قہستان کی طرف گئے، عیسیٰ بن علی نے ادق جوین اور ان قصبات ودیہات کی طرف اپنے لشکریوں کو متعین کیا جو حمزہ کی مدد کر رہے تھے اور نہایت بے رحمی سے چن چن کر خوارج کو قتل کیا، یہاں تک کہ تیس ہزار آدمی اسی طرح مارے گئے، اس کے بعد عیسیٰ مقام زرنج میں عبداللہ بن عباس نسفی کو مال غنیمت جمع کرنے کے لیے چھوڑ کر کابل وزابلستان تک بڑھتا چلا گیا۔
ابو خصیب وہب بن عبداللہ جو شہر نساء میں امان طلب کرنے کے بعد خاموش بیٹھا تھا، میدان خالی دیکھ کر عہد شکنی پر مستعد ہو گیا اور باغیوں کا ایک گروہ کثیر اپنے گرد جمع کرکے اجیور '' نساء'' طوس اور نیشاپور پر قابض ہو گیا، ادھر حمزہ نے اپنی مختصر جمعیت سے گاؤں اور قصبوں پر چھاپے مارنے اور راستے لوٹنے شروع کردیئے، غرض حمزہ اور وہب نے چار سال تک علی بن عیسیٰ اور اس کے ہمراہیوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا، اس عرصہ میں بعض اوقات ابوخصیب نے مرو کا بھی محاصرہ کیا، آخر ۱۸۷ ھ میں ابو خصیب وہب کے مارے جانے سے خراسان میں امن و امان قائم ہو گیا اور علی بن عیسیٰ نے اہل خراسان پر سختی و تشدد شروع کیا۔
اسی سال ۱۸۲ھ میں عبدالرحمن بن عبدالملک بن صالح صائفہ کے ساتھ بغرض جہاد بلاد روم کی طرف روانہ ہوا، اسی زمانہ میں رومیوں نے اپنی بادشاہ قسطنطین کی وفات کے بعد اس کی ماں ملکہ ریبی کو عطشہ کے لقب سے تخت نشین کیا، ہارون الرشید کے رعب و اقتدار کا جو دربار قسطنطنیہ پر چھایا ہوا تھا، یہ نتیجہ ہوا کہ اس رومی ملکہ نے صلح کی سلسلہ جنبانی شروع کی اور اسلامی سرداروں کے پاس پیغامات بھیج کر ان کو صلح کی جانب مائل کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ فرانس کا بادشاہ شارلمین اٹلی کا ملک فتح کر چکا تھا اور مغربی روم پر قابض ہوکر مشرقی روم یعنی سلطنت قسطنطنیہ پر بھی دانت رکھتا تھا، اس لیے اس رومی ملکہ نے بڑی دانائی کے ساتھ ہارون الرشید کو جزیہ دینا منظور کرکے صلح کرلی اور اپنے آپ کو مغربی خطرہ کا مقابلہ کرنے کے قابل بنالیا۔
==================