خوارج کا فتنہ:
جس زمانے میں مصر وشام وموصل وغیرہ میں بغاوتیں ہو رہی تھیں، اسی زمانے میں خراسان کے اندر قیس بن ثعلبہ کے آزاد کردہ غلام حصین خارجی نے عَلم بغاوت بلند کرکے بد امنی پھیلا رکھی تھی، خراسان کے گورنر خالد بن عطاء کندی نے داؤد بن یزید کو سیستان کا عامل بنایا تھا، اس نے عثمان بن عمارہ کو حصین خارجی کے مقابلہ پر روانہ کیا، حصین نے اس کو شکست دے کر بھگا دیا، اس کے بعد باد غیس، بوسنج اور ہرات کو لوٹ مار سے غارت کیا، اس کے بعد خالد کندی نے بارہ ہزار کا لشکر حصین کی گرفتاری پر مامور کیا، حصین نے صرف چھ سو آدمیوں سے اس بارہ ہزار کے لشکر کو شکست فاش دی اور برابر فساد وبدامنی پھیلاتا رہا، بار بار لڑائیاں ہوئیں، مگر ہر لڑائی میں حصین نے لشکر خراسان کو شکست دی۔ آخر ۱۷۸ھ کے ابتدائی ایام میں حصین خارجی کے قتل ہونے سے خراسان میں امن و امان قائم ہوا۔ اسی سال یعنی ۱۷۸ھ میں زفر بن عاصم نے بلاد روم پر فوج کشی کی۔
۱۷۹ھ کے ماہ رمضان میں خلیفہ ہارون الرشید نے عمرہ ادا کیا اور اسی احرام سے حج کیا، مکہ معظمہ سے عرفات تک پیادہ سفر کیا، اسی سال سیدنا امام مالک بن انس نے ۷ ربیع الثانی کو بہ عمر ۸۴ سال وفات پائی اور اسی سال یعنی ماہ ذیقعدہ ۱۷۹ھ میں امام ابو حنیفہؒ کے بیٹے حماد نے وفات پائی۔
۱۸۰ھ میں ماوراء النہر کی طرف ترکوں اور مغلوں پر جہاد کرنے کے لیے فوجیں روانہ کی گئیں اور خراسان کی گورنری پر علی بن عیسیٰ بن ماہان کو مامور کیا گیا، اس تقرر کو ہارون الرشید کے وزیر اعظم یحییٰ بن خالد برمک نے ناپسند کیا اور علی بن عیسیٰ کی سخت مزاجی کی طرف توجہ دلائی، مگر ہارون نے یحییٰ کے مشورے کو نہیں مانا اور علی بن عیسیٰ کو خراسان روانہ کر دیا۔ یحییٰ بن خالد کو فطرتاً یہ بات پسند نہ تھی کہ اہل خراسان پر جو اس کا آبائی وطن تھا، ظلم وتشدد ہو۔ ادھر خراسان کی آئے دن کی بغاوتیں مجبور کرتی تھیں کہ ہارون کسی سخت گیر شخص کو خراسان کی حکومت سپرد کرے۔
اسی سال یعنی ۱۸۰ھ میں سخت زلزلہ آیا جس کے صدمہ سے اسکندریہ کے مینار گر پڑے، اسی سال ہشام بن عبدالرحمن سلطان اندلس کا انتقال ہوا اور اس کا بیٹا سلطان الحکم تخت نشین ہوا۔ اسی سال ابو بشر عمرو بن عثمان ملقب بہ سیبویہ جو علم نحو کا امام اور شہر بیضاد بلاد فارس کا رہنے والا تھا، چالیس سال سے کچھ زیادہ کی عمر میں فوت ہوا۔
۱۸۱ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے بذات خود بلاد روم پر فوج کشی کی اور قلعہ صفصاف کو بہ زور شمشیر فتح کیا۔ اسی سال عبدالملک بن صالح نے انقرہ تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ اسی سال رومیوں اور مسلمانوں میں اس بات کی تحریک ہوئی کہ رومی اپنے قیدیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرالیں اور اس کے معاوضہ میں مسلمانوں کو جو ان کی قید میں ہیں آزاد کر دیں۔
یہ سب سے پہلی صلح دولت عباسیہ کی رومیوں کے ساتھ ہوئی، مقام لامس سے جو طراسوس سے بارہ فرسنگ کے فاصلے پر تھا، علماء و اعیان سلطان بائیس ہزار فوج مع باشندگان سرحد جمع ہوئے۔ والی طراسوس بھی آیا اور ہارون الرشید کے بیٹے قاسم المعروف بہ مؤتمن کے زیر اہتمام ایک بڑی شاندار مجلس منعقد ہوئی، رومی مسلمان قیدیوں کو جن کی تعداد تین ہزار سات سو تھی، لے کر آئے، ان کے معاوضہ میں مؤتمن نے عیسائی قیدیوں کو ان کے سپرد کر دیا۔
اسی سال ہرثمہ بن اعین افریقہ کی گورنری سے مستعفی ہو کر بغداد آیا اور ہارون الرشید کے رکابی دستہ فوج کا افسر مقرر ہوا اور محمد بن مقاتل بن حکیم افریقہ کی گورنری پر بھیجا گیا۔
==================