یحییٰ بن عبداللہ کا خروج:
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ ادریس اور یحییٰ پسران عبداللہ بن حسن برادران محمد مہدی نفس زکیہ جنگ فخ سے فرار ہو گئے تھے، ادریس نے بلاد مغرب میں جاکر مراکش پر قبضہ کیا، جس کا گزشتہ قسط میں ذکر ہو چکا ہے۔
دوسری طرف یحییٰ بن عبداللہ نے دیلم میں خلافت عباسیہ کے خلاف خروج کیا، لوگوں نے ہر چہار سمت سے آ آ کر بیعت کرنی شروع کی اور بہت بڑی زبردست طاقت ان کو حاصل ہو گئی، ہارون الرشید اس خبر کو سن کر بہت گھبرایا اور پچاس ہزار زبردست فوج کے ساتھ فضل بن یحییٰ کو اس فتنہ کے فرو کرنے کے لیے روانہ کیا، ساتھ ہی فضل بن یحییٰ کو جرجان، طبرستان اور رے وغیرہ کی سند گورنری بھی دے دی۔
فضل بن یحییٰ نے بغداد سے روانہ ہوکر اور طالقان میں پہنچ کر یحییٰ بن عبداللہ کے نام ایک خط لکھا، جس میں خلیفہ وقت کی طاعت وعظمت سے ڈرایا اور صلح کر لینے کی حالت میں انعام وجاگیر کی توقع دلائی، یحییٰ نے اس کے جواب میں لکھا کہ مجھ کو اس شرط سے صلح منظور ہے کہ ہارون الرشید اپنے قلم سے صلح نامہ لکھے اور اس پر فقہاء و قضاۃ اور سرداران بنو ہاشم کے دستخط بطور گواہ ثبت ہوں۔
فضل بن یحییٰ نے ان تمام حالات سے ہارون الرشید کو اطلاع دی، ہارون الرشید بہت خوش ہوا اور اپنے ہاتھ سے صلح نامہ لکھ کر اور اس پر مندرجہ بالا شرط کے موافق دستخط کرا کر مع تحائف و ہدایا فضل کے پاس بھیج دیا، فضل نے یحی بن عبداللہ کے پاس یہ صلح نامہ بھیجا، چنانچہ یحییٰ اور فضل دونوں بغداد کی طرف روانہ ہوئے، اس صلح میں والیٔ دیلم کو بھی جس نے اپنے قلعہ میں یحییٰ بن عبداللہ کو قیام پزیر ہونے کا موقع دیا تھا اور ہر طرح ان کا معین و مدد گار تھا، دس لاکھ روپیہ اس شرط پر دینا منظور کیا گیا تھا کہ وہ عبداللہ کو صلح پر آمادہ کر دے، چنانچہ وہ رقم اس کے پاس بھجوا دی گئی۔
یحییٰ اور فضل جب بغداد میں پہنچے تو ہارون الرشید نے نہایت عزت اور تپاک کے ساتھ یحییٰ بن عبداللہ سے ملاقات کی، جاگیر مقرر کی، انعامات دیے اور اس کام کے صلہ میں فضل بن یحییٰ کے مرتبہ میں بھی اضافہ کیا گیا اور یحییٰ بن عبداللہ کو فضل بن یحییٰ کے سپرد کیا گیا کہ تم ہی ان کو اپنے پاس رکھو، چنانچہ یحییٰ بن عبداللہ آرام سے فضل بن یحییٰ کی نگرانی میں زندگی بسر کرنے لگے اور بغداد میں رہنے لگے۔
۱۷۶ھ میں ہارون الرشید کے پاس خبر پہنچی کہ مصر کا گورنر موسیٰ بن عیسیٰ دعوت علویہ سے متاثر ہے اور وہ انقلاب خلافت کی تدابیر میں مصروف ہے، ہارون الرشید نے ملک مصر کی گورنری کا انتظام جعفر بن یحییٰ برمکی کے سپرد کیا، جعفر نے عمر بن مہران کو جس کی کنیت ابو حفص تھی، مصر کی گورنری کے لیے تجویز کیا، اس نے اس شرط پر مصر کی گورنری منظور کی کہ میں جب ملک مصر کے کاموں کا انتظام کر چکوں اور خراج مصر کا بقایا سب وصول کرکے داخل خزانہ کردوں تو پھر مصر سے واپسی میرے اختیار میں رہے کہ جب چاہوں واپس چلا آؤں اور اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہ رہے، ہارون الرشید نے اس شرط کو منظور کرکے سند گورنری عمر بن مہران کو لکھ دی، اس نے مصر میں جاکر موسیٰ بن عیسیٰ سے چارج لیا اور چند روز میں تمام بقایا وہاں کے لوگوں سے وصول کرکے بغداد واپس چلا آیا اور مصر کی گورنری پر ہارون نے اسحاق بن سلیمان کو روانہ کیا۔
==================