حسین بن علی کا خروج:
حسین بن علی بن حسن مثلث بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بن ابی طالب اور حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن، ان کے چچا یحییٰ بن عبداللہ بن حسن اور دوسرے آل ابی طالب نے مل کر حکومت عباسیہ کے خلاف خروج کی سازش کی تھی اور یہ بات قرار پائی تھی کہ ۱۵۹ھ کے موسم حج میں خروج کرنا چاہیئے، مگر ایام حج سے پہلے ہی مدینہ کے عامل عمر بن عبدالعزیز بن عبیداللہ سے ان لوگوں کی کچھ ان بن ہو گئی اور انہوں نے خروج کرکے عامل مدینہ کے مکان کا محاصرہ کر کے حسین بن علی بن حسن مثلث کے ہاتھ پر بیعت کرنی شروع کی اور اہل مدینہ اس بیعت میں شامل ہونے لگے۔
اس اثناء میں خالد یزیدی دو سو آدمیوں کی جمعیت کے ساتھ آ پہنچا، دوسری جانب سے عمر بن عبدالعزیز بھی محاصرہ سے نکل کر اور ایک جماعت کو ہمراہ لےکر مسجد کی طرف جہاں حسین بن علی کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی تھی آ پہنچا، جو لوگ مسجد میں موجود تھے، انہوں نے مقابلہ کیا، اس لڑائی میں خالد یزیدی یحییٰ وادریس پسران عبداللہ بن حسن کے ہاتھ مارا گیا، اس کے مارے جاتے ہی سب کو شکست ہوئی اور حسین بن علی کی جماعت نے بیت المال کا دروازہ توڑ کر سرکاری خزانہ لوٹ لیا، اگلے دن بنو عباس کے حامیوں نے جمع ہو کر پھر مقابلہ کیا، کئی روز تک مدینہ میں لڑائی کا یہ سلسلہ جاری رہا، آخر حسین بن علی نے سب کو خارج کرکے مدینہ پر مکمل قبضہ حاصل کیا۔
اکیس روز تک مدینہ میں قیام کر کے مکہ کی جانب کو کوچ کیا، مکہ معظمہ میں پہنچ کر منادی کرا دی کہ جو غلام ہمارے پاس آئے گا ہم اس کو آزاد کر دیں گے، یہ سن کر غلاموں کا ایک گروہ حسین بن علی کے گرد فراہم ہو گیا،
اس سال سلیمان بن منصور، محمد بن سلیمان بن علی، عباس بن محمد بن علی، موسیٰ و اسماعیل، پسران عیسیٰ بن موسیٰ وغیرہ عباسیہ خاندان کے چند آدمی حج کے لیے آئے تھے، ان لوگوں کے روانہ ہونے کے بعد ہادی کے پاس حسین بن علی کے خروج کی خبر پہنچی، ہادی نے فوراً محمد بن سلیمان کو ایک خط لکھا کہ تم اپنے تمام ہمراہیوں کو لے کر حسین بن علی کا مقابلہ کرو، محمد بن سلیمان اپنے ساتھ کچھ فوج بھی لایا تھا، محمد بن سلیمان نے مقام ذی طویٰ میں سب کو اسلحہ فراہم کر کے لشکر کو باقاعدہ مرتب کیا اور مکہ معظمہ میں پہنچ کر عمرہ ادا کیا۔ وہاں مختلف صوبوں اور ملکوں سے جو سرداران عباسیہ حج کے لیے آئے تھے، وہ سب محمد بن سلیمان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
یوم الترویہ کو مقام فخ میں صف آرائی وجنگ آزمائی کی نوبت پہنچی، بہت سے آدمی مارے گئے، آخر حسین بن علی کو شکست حاصل ہوئی اور ان کے ہمراہی فرار ہو گئے، تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص حسین بن علی کا سر لے کر آیا، ان کے ہمراہیوں کے قریباً سو سر جمع کئے گئے، انہیں میں سلیمان برادر محمد مہدی کا سر بھی تھا، ہزیمت یافتہ لوگ میدان سے بھاگ کر حجاج میں شامل ہو گئے، ادھر محمد بن سلیمان نے امان کی منادی کرا دی۔ حسن بن محمد بن عبداللہ امان کی منادی کے بعد گرفتار ہوا، اس کو موسیٰ بن عیسیٰ نے قتل کردیا، محمد بن سلیمان نے اس پر اظہار ناراضگی کیا اور ہادی کو بھی جب یہ بات معلوم ہوئی تو موسیٰ بن عیسیٰ کے مال و اسباب کو ضبط کر لیا۔
اس لڑائی میں ادریس بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب برادر محمد مہدی بھی بچ کر نکل گیا تھا، وہ وہاں سے فرار ہو کر مصر پہنچا، وہاں صالح بن منصور کا آزاد کردہ غلام واضح محکمہ ڈاک کا افسر تھا، اس کو آل ابی طالب کے ساتھ ہمدردی تھی، اس نے ادریس کو تیز رفتار گھوڑے پر سوار کرا کر بلاد مغرب کی طرف روانہ کر دیا، وہاں ادریس شہر دلیلہ مضافات طبخہ میں پہنچا اور بربریوں کو دعوت دینی شروع کی، (اولاد کا حال آئندہ جدا گانہ بیان ہو گا) چند روز کے بعد خلیفہ ہادی کو اس بات کی اطلاع ہوئی کہ واضح نے ادریس کو مغرب کی طرف بھگا دیا ہے، چنانچہ ہادی نے واضح اور اس کے ہمراہیوں کو گرفتار کرا کر قتل کرا دیا۔ ادریس بن عبداللہ کا دوسرا بھائی یحییٰ بن عبداللہ مقام فخ سے فرار ہو کر دیلم پہنچا۔
==================