ہادی بن مہدی کی ولی عہدی:
جیساکہ اوپر بیان ہو چکا ہے، عیسیٰ بن موسیٰ موضع رحبہ متصل کوفہ میں رہتا اور جمعہ یا عید کے روز کوفہ میں نماز پڑھنے آتا اور تمام وقت اپنے گاؤں میں خاموشی و بےتعلقی کے ساتھ بسر کرتا تھا، یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ منصور کے بعد عیسیٰ کو عبداللہ سفاح نے ولی عہد مقرر کیا تھا، منصور نے عیسیٰ کو مؤخر کرکے اپنے بیٹے مہدی کو مقدم کر دیا، اب مہدی کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ ولی عہد تھا، لیکن مہدی کو اس کی خلافت کے پہلے ہی سال میں اس کے ہمدردوں اور مشیروں نے ترغیب دی کہ عیسیٰ بن موسیٰ کی جگہ آپ اپنے بیٹے ہادی کو ولی عہد بنائیں، مہدی نے عیسیٰ کو اپنے پاس بغداد میں طلب کیا، عیسیٰ نے آنے سے انکار کیا، مہدی نے گورنر کوفہ کو تاکیدی حکم دیا کہ عیسیٰ کو تنگ کیا جائے، مگر چونکہ عیسیٰ پہلے ہی سے خانہ نشین تھا، اس لیے گورنر کوفہ کو کوئی موقع عیسیٰ کے پریشان کرنے کا نہ مل سکا، پھر مہدی نے ایک سخت خط لکھا، اس نے کوئی جواب نہ دیا، پھر مہدی نے اپنے چچا عباس کو عیسیٰ کے پاس بھیجا کہ اس کو ہمراہ لائے، عیسیٰ نے پھر بھی انکار کیا۔
آخر مہدی نے دو سپہ سالاروں کو عیسیٰ کے لانے پر مامور کیا، مجبور ہو کر عیسیٰ بغداد میں آیا اور محمد بن سلیمان کے مکان پر فروکش ہوا، مہدی کے دربار میں آتا جاتا رہا، مگر بالکل خاموش جاتا، خاموش رہتا اور خاموش چلا آتا، آخر عیسیٰ پر تشدد شروع کیا گیا اور خود محمد بن سلیمان نے اس کو مجبور کرنا چاہا کہ وہ ولی عہدی سے دستبردار ہو جائے، عیسیٰ نے اس عہد وقسم کا عذر کیا جو اس سے ولی عہدی کے وقت لی گئی تھی، مہدی نے فقہاء کو طلب کیا، انہوں نے فتویٰ دیا کہ عیسیٰ قسم کا کفارہ دے کر ولی عہدی سے دست کش ہو سکتا ہے، مہدی نے اس کے عوض دس ہزار درہم اور زاب و کسکر میں جاگیریں دیں اور عیسیٰ نے ۲۶، محرم ۱۶۰ھ کو ولی عہدی سے خلع کیا اور ہادی کی ولی عہدی کی بیعت کرلی۔
اگلے دن مہدی نے دربار عام کیا، اراکین سلطنت سے بیعت لی، پھر جامع مسجد میں آیا خطبہ دیا، عیسیٰ کے معزول اور ہادی کے ولی عہد ہونے کی لوگوں کو اطلاع دی، عیسیٰ نے اپنی ولی عہدی کے خلع کا اقرار کیا، لوگوں نے ہادی کی ولی عہدی کی بیعت کرلی۔
مہدی کا حج:
۱۶۰ھ کے ماہ ذیقعدہ میں مہدی نے حج کی تیاری کی، اپنے بیٹے ہادی کو بغداد میں اپنا نائب بنا کر چھوڑا، ہادی کے ماموں یزید بن منصور کو ہادی کے ساتھ مقرر کیا، دوسرے بیٹے ہارون کو مع چند اہل خاندان کے ہادی کی مصاحبت پر متعین کیا اور خود وزیر یعقوب بن داؤد بن طہمان کے مکہ معظمہ کی جانب روانہ کیا، مکہ میں پہنچ کر خانہ کعبہ کے پرانے تمام غلافوں کو جو تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے تھے، اتروایا اور ایک نیا قیمتی غلاف چڑھایا، ڈیڑھ لاکھ غرباء کو کپڑے تقسیم کئے، مسجد نبوی کو وسیع کرایا، واپسی میں انصار کے پانچ سو خاندان اپنے ہمراہ عراق میں لایا، ان کو یہاں آباد کر کے جاگیریں اور وظیفے مقرر کئے اور اپنی محافظت پر ان کو مامور کیا، مکہ کے راستے میں مکانات بنوائے، ہر مکان میں حوض اور کنویں بھی بنوائے، ان تمام کاموں کا اہتمام یقطین بن موسیٰ کے سپرد کیا، مسجد بصرہ کی بھی توسیع کرنے اور اس کے منبر کو چھوٹا کرنے کا حکم دیا۔
اندلس میں چھیڑ چھاڑ:
مہدی کی طرف سے افریقہ کا گورنر عبدالرحمن بن حبیب فہری تھا، اس نے بربریوں کی ایک جمعیت لےکر اندلس کے ساحل مرسیہ میں پہنچ کر اندلس کے صوبہ سرقسطہ کے گورنر سلیمان بن یقطن کو خلافت عباسیہ کی دعوت دی، سلیمان نے اس تحریر کا کوئی جواب نہیں دیا، اسی اثناء میں امیر عبدالرحمن فہری نے سر قسط پر حملہ کیا، سلیمان نے شکست دے کر عبدالرحمن فہری کو پیچھے ہٹا دیا۔
اسی اثناء میں امیر عبدالرحمن فرمانروائے اندلس فوج لےکر آپہنچا، اس نے سب سے پہلے عبدالرحمٰن فہری کی کشتیوں کو جو ساحل پر کھڑی تھیں، جلوا دیا، تاکہ فرار ہو کر نکل نہ جائے، اس کے بعد عبدالرحمن فہری کی طرف متوجہ ہوا، عبدالرحمن پریشان ہو کر بلنسیہ کے پہاڑ پر چڑھ گیا، امیر عبدالرحمن نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی عبدالرحمن بن حبیب فہری کا سرکاٹ کر لائے گا اس کو ایک ہزار دینار انعام میں دیا جائے گا، اس کی خبر کہیں عبدالرحمن فہری کے ہمراہی کسی بربری کو بھی ہو گئی، وہ غفلت کی حالت میں عبدالرحمن کا سرکاٹ کر امیر عبدالرحمن کے پاس لے آیا اور انعام لے کر چل دیا۔
امیر عبدالرحمن کو عباسیوں کی اس فوج کشی سے اشتعال پیدا ہوا، اس نے جواباً ارادہ کیا کہ لشکر لے کر ساحل شام پر حملہ آور ہو اور خلیفہ عباسی کو اس گستاخی کا مزا چکھائے، مگر انہیں ایام میں حسن بن یحییٰ بن سعید بن سعد بن عثمان انصاری نے سر قسط میں عَلم بغاوت بلند کیا، لہٰذا عبدالرحمن اموی فرماروائے اندلس اس طرف متوجہ ہوگیا اور شام کا قصد ملتوی رہا۔
خلیفہ منصور عباسی کے زمانے سے اندلس میں خاندان بنوامیہ کی حکومت قائم ہو کر ایک الگ اسلامی حکومت کا دوسرا مرکز بن گیا تھا، ا
س وقت چونکہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے، لہٰذا خلافت عباسیہ کے فرمانرواوں کا حال جب تک کہ ان کی فرمانروائی اندلس کے سوا تمام عالم اسلامی پر قائم رہی، اسی سلسلہ میں ختم کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے، اندلس کی حکومت کا حال اس کے بعد شروع سے الگ بیان کیا جائے گا، قارئین کرام منتظر رہیں۔