سنہ ۱۳۳ھ میں قیصر روم نے لمطیہ اور قالیقلا مسلمانوں سے بہ زور شمشیر فتح کر لیے۔ اسی سنہ میں یزید بن عبیداللہ بن عبدالمدان نے مدینہ سے ابراہین بن حبان سلمی کو یمامہ کی طرف فوج دے کر روانہ کیا، وہاں مثنیٰ بن زید بن عمر بن ہبیرہ اپنے باپ کے زمانے سے حاکم تھے، اس نے ابراہیم کا مقابلہ کیا اور مارا گیا، اسی سال بخارا میں شریک بن شیخ مہری نے ابومسلم کے خلاف خروج کیا اور تیس ہزار سے زیادہ لوگ جمع کر لیے، ابومسلم نے زیاد بن صالح خزاعی کو شریک کے مقابلہ پر روانہ کیا، شریک نے مقابلہ کیا اور مارا گیا۔
ابومسلم نے ذوالحجہ سنہ ۱۳۳ھ میں ابوداؤد خالد بن ابراہیم کو بلاد ختل پر چڑھائی کرنے کے لیے روانہ کیا، حبش میں شبل بادشاہ ختل کو شکست ہوئی، وہ بھاگ کر فرغانہ ہوتا ہوا ملک چین چلا گیا، اسی زمانہ میں اخثید، فرغانہ اور شاش کے بادشاہوں کے خلاف ایک لاکھ فوج بھیج دی، ابو مسلم نے زیاد بن صالح کو اس طرف روانہ کیا، چینی فوج سے زیاد بن صالح کا مقابلہ نہر طراز پر ہو گیا، پچاس ہزار چینی قتل ہوئے اور بیس ہزار مسلمانوں نے گرفتار کر لیے۔
سنہ ۱۳۴ھ میں بسام بن ابراہیم نے جو خراسان کا ایک نامور سپہ سالار تھا، علم بغاوت بلند کیا اور مدائن پر قابض ہو گیا، سفاح نے خازم بن خزیمہ کو بسام کے مقابلہ پر روانہ کیا، خازم نے بسام کو شکست فاش دی اور میدان جنگ سے بھگا دیا، اس کے بعد سفاح نے خازم کو عمان کی طرف خارجیوں سے لڑنے کے لیے روانہ کیا، وہاں اس نے خارجیوں کو شکست دے کر ان کے سردار کو قتل کر دیا، اسی سال ابوداؤد خالد بن ابراہیم نے اہل کش پر فوج کشی کی اور کش کے بادشاہ کو جو ذمی تھا، قتل کر ڈالا اور اس کے سر کو ابومسلم کے پاس سمرقند میں بھیج دیا اور مقتول بادشاہ کے بھائی طازان کو تخت نشین کرکے بلخ لوٹ آیا۔
ابومسلم نے اسی زمانہ میں اہل صغد اور اہل بخارا کا قتل عام کیا اور بخارا و سمرقند کا حاکم زیاد بن صالح کو بنا کر اور شہر سمرقند کی شہر پناہ بنانے کا حکم دے کر مرو کو واپس آیا۔
ان واقعات کے بعد سفاح کے پاس خبر پہنچی کہ منصور بن جمہور نے سندھ میں بغاوت وعہد شکنی اختیار کی ہے (یہ منصور بن جمہور وہی ہے جو دو مہینے یزید الناقص کے عہد میں گورنر عراق وخراسان بھی رہ چکا تھا اور عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر کے ساتھیوں میں سے تھا، جب عبداللہ بن معاویہ کو اصطخر کے قریب داؤد بن یزید بن عمر بن ہبیرہ اور معن بن زائدہ کے مقابلہ میں شکست فاش حاصل ہوئی تو منصور بن جمہور سندھ کی طرف بھاگ کر چلا آیا تھا اور عبداللہ بن معاویہ ہرات پہنچ کر مالک بن ہیثم خزاعی والی ہرات کے ہاتھ سے ابومسلم کے حکم کے موافق قتل ہوئے تھے)۔
سفاح نے اپنے افسر پولیس موسیٰ بن کعب کو سندھ کی طرف روانہ کیا اور اس کی جگہ مسیب بن زہیر کو مقرر کیا۔ موسیٰ اور منصور سے سرحد ہند پر مقابلہ ہوا۔ منصور کے ہمراہ بارہ ہزار فوج تھی، مگر موسیٰ سے شکست کھا کر بھاگا اور ریگستان میں شدت تشنگی سے مر گیا۔ منصور کے گورنر نے جو سندھ میں تھا، یہ سن کر مع اہل و عیال اور اموال بلاد خرز کی طرف کوچ کیا۔ اسی سال یعنی ذوالحجہ سنہ ۱۳۴ھ میں سفاح مقام انبار میں آیا اور اسی مقام کو دارالخلافہ بنایا۔
سنہ ۱۳۵ھ میں زیاد بن صالح نے جو ابو مسلم کی طرف سے سمرقند و بخارا کا عامل تھا، بغاوت اختیار کی۔ ابومسلم یہ سن کر مرو سے روانہ ہوا اور ابوداؤد خالد بن ابراہیم نے زیاد کی بغاوت کا حال سن کر نصر بن راشد کو ترمذ کی طرف بھیج دیا کہ ترمذ کو زیاد سے دست برد سے بچائے۔ نصر بن راشد ترمذ پہنچا ہی تھا کہ چند لوگوں نے طالقان سے نکل کر اس کو مار ڈالا، ابوداؤد نے یہ سن کر عیسیٰ بن ہامان کو قاتلین نصر کے تعاقب پر مامور کیا، عیسیٰ نے قاتلین نصر کو قتل کیا، اسی اثناء میں ابو مسلم مقام آمد میں پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ سباع بن نعمان ازدی بھی تھا، سفاح نے زیادہ بن صالح اور سباع بن نعمان ازدی کو یہ سمجھا کر ابومسلم کے پاس روانہ کیا تھا کہ اگر موقع ملے تو ابومسلم کو قتل کر دینا۔
مقام آمد میں پہنچ کر ابومسلم کو کسی ذریعہ سے یہ خبر معلوم ہوئی، اس نے فوراً سباع کو آمد میں قید کر دیا اور وہاں کے عامل کو یہ حکم دے گیا کہ سباع کو قتل کر دینا، آمد سے ابو مسلم بخارا کی طرف روانہ ہوا، راستے میں اس کو زیاد بن صالح کے چند سپہ سالار ملے، جو اس سے منحرف ہو کر ابومسلم کی طرف آرہے تھے، زیاد، ابو مسلم کے بخارا پہنچنے پر ایک دہقان کے گھر میں جا چھپا، دہقان نے اس کو قتل کر ڈالا اور ابو مسلم کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔ ابو مسلم نے قتل زیاد کی خبر ابوداؤد کو لکھ بھیجی، ابوداؤد مہم طالقان میں مصروف تھا، فارغ ہو کر کش واپس آیا اور عیسیٰ بن ہامان کو بسام کی طرف روانہ کیا، مگر اس کو کچھ کامیابی حاصل نہ ہوئی، اسی زمانہ میں عیسیٰ بن ہامان نے چند خطوط ابو مسلم کے ہمراہیوں
کے پاس بھیجے تھے، ان خطوط میں ابوداؤد کی برائیاں لکھی تھیں، ابو مسلم نے ان خطوط کو لے کر ابوداؤد کے پاس بھیج دیا۔ ابوداؤد نے عیسیٰ کو پٹوا کر قید کر دیا۔ چند روز کے بعد جب اس کو رہا کیا تو لشکر اس پر ٹوٹ پڑے اور عیسیٰ کو مار ڈالا، اس مہم سے فارغ ہو کر ابو مسلم مرو کی طرف واپس آ گیا۔
سنہ ۱۳۶ھ میں عبداللہ بن علی سفاح کی خدمت میں آیا۔ سفاح نے اس کو لشکر شام اور لشکر عراق کے ساتھ رومیوں کی طرف روانہ کیا، سفاح کا بھائی ابوجعفر منصور جزیرہ کا عامل تھا، اس نے اس سال سفاح کے اشارے سے حج کا ارادہ کیا اور سفاح سے اجازت طلب کی، سفاح نے لکھا کہ تم میرے پاس چلے آؤ، میں تم کو امیر حج بنا کر بھیجوں گا، چنانچہ منصور انبار چلا آیا اور حران کی حکومت پر مقاتل بن حکیم مامور کیا گیا، بات یہ تھی کہ اسی سال ابو مسلم نے بھی سفاح سے حج کی اجازت طلب کی تھی، لہٰذا سفاح نے خود ہی اپنے بھائی منصور کو مخفی طور پر اطلاع دی کہ تم فوراً حج کے لیے تیار ہو جاؤ اور درخواست بھیج دو۔
اس موقع پر یہ ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ ابو مسلم خراسانی نے دعوت عباسیہ کو کامیاب بنانے میں سب سے بڑا کام کیا تھا، جیسا کہ گزشتہ واقعات سے ظاہر ہے۔ اب سفاح کے خلیفہ ہو جانے اور حکومت عباسیہ کے استقلال کے بعد وہ خراسان کا گورنر بنا دیا گیا اور سفاح نے اس کے نام باقاعدہ سند حکومت بھی بھیج دی، مگر ابو مسلم نے خود حاضر دربار خلافت ہو کر بیعت نہیں کی تھی، وہ شروع میں پہلی مرتبہ جب امام ابراہیم کی طرف سے خراسان بھیجا گیا تھا، اسی وقت سے اب تک مسلسل خراسان میں موجود تھا، اسی نے خراسان پر قبضہ کیا، اسی نے اپنی حکومت قائم کی اور وہی ہر طرح خراسان پر مستولی تھا، جب ایک ایک کر کے تمام دشمنوں کا کام تمام ہو گیا تو عبداللہ سفاح کو خیال آیا کہ ابو مسلم کی منشاء کے خلاف نہ اس کو کسی صوبہ کی حکومت پر تبدیل کر سکتا تھا، نہ اس کے زور قوت کو گھٹا سکتا تھا۔
ابو مسلم اپنے آپ کو خلافت عباسیہ کا بانی سمجھتا اور اپنے آپ کو خلیفہ سفاح کا سرپرست جانتا تھا، وہ خلیفہ سفاح کو مشورے دیتا اور سفاح اس کے مشوروں پر اکثر عمل کرتا، لیکن خراسان کے معاملات میں وہ سفاح سے اجازت یا مشورہ لینا ضروری نہ سمجھتا تھا، عثمان بن کثیر عباسیوں کے نقباء میں ایک نامور اور سب سے پرانا نقیب تھا، اس کو ابومسلم نے ذاتی کاوش کی بنا پر قتل کر دیا اور سفاح اس کے متعلق ابو مسلم سے کوئی جواب طلب نہ کر سکا اور سفاح، اس کے چچا، اس کے بھائی بھی اپنے حوصلے بلند رکھنے اور ابومسلم کی اس خود سرانہ حکمرانی کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔
سفاح نے جب اپنے بھائی ابو جعفر منصور کو خراسان کی طرف بیعت لینے کے لیے بھیجا اور اسی کے ہاتھ ابو مسلم کے نام سند گورنری بھیجی تو ابو مسلم کا برتاؤ ابوجعفر منصور کے ساتھ مؤدبانہ نہ تھا، بلکہ اس کی ہر ایک حرکت سے ابوجعفر نے خود سری اور مطلق العنانی محسوس کی تھی، چنانچہ ابومسلم اور ابوجعفر کے درمیان دلوں میں ایک کشیدگی پیدا ہو چکی تھی، ابوجعفر نے جب یہ تمام حالات سفاح کو سنائے تو وہ اور بھی زیادہ اس فکر میں پڑ گیا کہ ابو مسلم کے اقتدار واثر اور اختیار وتسلط کو کس طرح کم کرے، چنانچہ اس نے یہی مناسب سمجھا کہ ابو مسلم کا کام تمام کر دیا جائے۔ اسی لیے زیاد بن صالح اور سباع بن نعمان ازدی سے سفاح نے اس کام کی سفارش کی، جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ غرض حالت یہ تھی کہ سفاح اور ابو مسلم کے دل صاف نہ رہے تھے۔
ابو مسلم چونکہ اقتدار پسند اور اولوالعزم شخص تھا، اس کو جب خلیفہ سفاح کی طرف سے شبہ پیدا ہوا تو اس نے صرف خراسان ہی پر اپنے اثر و اقتدار کو کافی نہ سمجھ کر حجاز وعراق میں بھی اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش ضروری سمجھی، تاکہ اگر ضرورت پڑے تو وہ عباسیوں کو کچل سکے، ایک ایسے شخص کا جو دعوت عباسیہ کو کامیاب بنا چکا تھا، حجاز و عراق اور تمام اسلامی ممالک میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے کام پر مخفی طریقہ سے آمادہ ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہ تھی، لیکن اس کو یہ بات یاد نہ رہی کہ اس کے مقابلہ پر وہ خاندان ہے جس میں محمد بن علی اور ابراہیم بن محمد جیسے شخص یعنی بانی تحریک عباسیہ پیدا ہو سکتے ہیں اور خلافت بنو امیہ کی بربادی سے فارغ ہو کر ابھی اس پر قابض ہوئے ہیں، ابو مسلم نے اگرچہ سب سے زیادہ کام کیا تھا، لیکن وہ اس کام میں عباسیوں کا شاگرد اور عباسیوں ہی کا تربیت کردہ تھا۔
غرض ابو مسلم نے سفاح سے حج کی اجازت طلب کی، سفاح نے اس کو اجازت دی اور لکھا کہ اپنے ہمراہ پانچ سو آدمیوں سے زیادہ نہ لاؤ، ابو مسلم نے لکھا کہ لوگوں کو مجھ سے عداوت ہے، اتنے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ سفر کرنے میں مجھ کو اپنی جان کا خطرہ ہے، سفاح نے لکھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار آدمی کافی ہیں، زیادہ آدمیوں کا ساتھ ہونا اس لیے باعث تکلیف ہو گا کہ سفر مکہ میں سامان رسد کی فراہمی دشوار ہے۔
ابو مسلم آٹھ ہزار فوج کے ساتھ مرو سے روانہ ہوا اور جب خراسان کی حد پر پہنچا
تو سات ہزار فوج کو سرحدی مقامات پر چھوڑ کر ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ دارالخلافہ انبار کی طرف بڑھا، سفاح نے اپنے بڑے بڑے نامی سپہ سالاروں کو استقبال کے لیے بھیجا اور جب دربار میں حاضر ہوا تو اس کی بے حد تعظیم وتکریم کی اور کہا کہ اگر اس سال میرے بھائی ابوجعفر منصور کا ارادہ حج نہ ہوتا تو میں تم ہی کو امیر حج مقرر کرتا، اس طرح ابو مسلم کی امیر حج ہونے کی خواہش پوری ہونے سے رہ گئی، غرض دارالخلافہ انبار سے ابوجعفر منصور اور ابو مسلم دونوں ساتھ ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے۔
ابو مسلم خراسان سے ایک بڑا خزانہ ہمراہ لے کر آیا تھا، منصور کی معیت اس کو پسند نہ تھی، کیونکہ وہ آزادانہ بہت سے کام جو کرنا چاہتا تھا، نہیں کر سکا، تاہم اس نے مکہ کے راستے میں ہر منزل پر کنویں کھدوائے، سرائیں بنوانے اور مسافروں کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے کے کام شروع کرا دیے، کپڑے تقسیم کیے، لنگر خانے جاری کیے، لوگوں کو بے دریغ انعامات دیے اور اپنی سخاوت وبخشش کے ایسے نمونے دکھائے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہو گئے۔
مکہ مکرمہ میں بھی اس نے یہی کام وسیع پیمانے پر کیے، جہاں ہر طرف کے لوگ موجود تھے، ایام حج کے گزرنے پر ابوجعفر منصور نے ابھی روانگی کا قصد نہ کیا تھا کہ ابو مسلم مکہ سے روانہ ہو گیا، مکہ سے دو منزل اس طرف آ گیا تھا کہ دارالخلافہ انبار کا قاصد اس کو ملا جو سفاح کے مرنے کی خبر اور ابوجعفر منصور کے خلیفہ ہونے کی خوشخبری لے کر منصور کے پاس جا رہا تھا، ابو مسلم نے اس قاصد کو دو روز تک ٹھہرائے رکھا اور پھر منصور کے پاس روانہ کردیا، منصور کو ابو مسلم کے پہلے ہی روانہ ہونے کا ملال تھا، اب اس بات کا ملال اور ہوا کہ ابو مسلم نے اس خبر کے سننے پر منصور کو خلافت کی مبارکباد نہیں بھیجی، بیعت کے لیے بھی نہیں ٹھہرا، حالانکہ سب سے پہلے اسی کو بیعت کرنی چاہیے تھی اور کم از کم منصور کے آنے تک اسی مقام پر قیام کرنا نہایت ضروری تھا کہ دونوں ساتھ ساتھ سفر کرتے، ابو جعفر منصور یہ خبر سنتے ہی فوراً مکہ سے روانہ ہو گیا، لیکن ابو مسلم اس سے آگے سفر کرتا ہوا انبار پہنچا۔ اس کے بعد منصور داخل دارالخلافہ ہوا۔
ابو مسلم اور ابو جعفر کو روانہ کرنے کے بعد ابوالعباس عبداللہ سفاح چار برس آٹھ مہینے خلافت کر کے بہ تاریخ ۱۳ ذی الحجہ سنہ ۱۳۶ھ کو فوت ہوا۔ اسی کے چچا عیسیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی، انبار میں دفن ہوا۔ اس نے مرنے سے پہلے اپنے بھائی ابوجعفر منصور اور اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کی ولی عہدی کا عہد نامہ لکھ کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر اور اپنے اہل بیت کی مہریں لگا کر عیسیٰ کے سپرد کر دیا تھا، چونکہ منصور موجود نہ تھا، اس لیے عیسیٰ بن موسیٰ نے منصور کی خلافت کے لیے لوگوں سے نیابتاً بیعت لی اور اس واقعہ کی اطلاع کے لیے قاصد مکہ کی طرف روانہ کیا۔
عبداللہ سفاح نے مال و دولت سے اپنی خلافت کے قیام و استحکام میں اسی طرح کام لیا جس طرح بانی خلافت بنو امیہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کام لیا تھا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سخاوت کے ذریعہ سے اپنے مخالفوں یعنی علویوں کا منہ بند کر دیا تھا اور ان کو اپنا ہمدرد بنا لینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح بانی خلافت عباسیہ سفاح کے مقابلہ پر بھی علوی ہی دعوے دار خلافت تھے، انہوں نے عباسیوں کے ساتھ مل کر بنو امیہ کو برباد کیا تھا اور اب عباسی خاندان میں خلافت کے چلے جانے سے وہ بالکل اسی طرح ناخوش تھے، جیسے کہ خاندان بنو امیہ میں خلافت کے چلے جانے سے ناراض تھے۔
عبداللہ سفاح نے بھی علویوں کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرح بے دریغ مال و دولت دے کر خاموش کر دیا۔ جب سفاح کوفہ میں خلیفہ بنایا گیا تو عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن علی اور دوسرے علوی لوگ کوفہ میں آئے اور کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ خلافت جو ہمارا حق تھا، اس پر تم نے قبضہ کیا، یہ عبداللہ بن حسن مثنیٰ ہیں جن کے لڑکے محمد کو بماہ ذی الحجہ سنہ ۱۳۱ھ مکہ میں مجلس کے اندر عباسیوں اور علویوں نے خلافت کے لیے منتخب کیا تھا اور تمام حاضرین مجلس کے ساتھ ابو جعفر منصور نے بھی محمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔
سفاح نے عبداللہ بن حسن مثنیٰ کی خدمت میں دس لاکھ درہم پیش کر دیے، حالانکہ یہ رقم سفاح کے پاس اس وقت موجود نہ تھی، ابن مقرن سے قرض لے کر دی۔ اسی طرح ہر ایک علوی کو انعام و اکرام سے مالا مال کر کے رخصت کیا، عبداللہ بن حسن ابھی سفاح کے پاس سے رخصت نہ ہوئے تھے کہ مروان بن محمد کے قتل ہونے کی خبر اور بہت سے قیمتی جواہرات و زیورات جو مال غنیمت میں آئے تھے، لے کر قاصد پہنچا۔ سفاح نے وہ تمام قیمتی جواہرات و زیورات بھی عبداللہ بن حسنی مثنیٰ کو دے دیے اور اسی ہزار دینار دے کر وہ زیورات ایک تاجر سے عبداللہ بن حسن نے خرید لیے۔ غرضیکہ عبداللہ سفاح سے اس کام میں ذرا بھی کوتاہی ہوتی تو یقینا علوی فوراً علانیہ مخالفت پر آمادہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے اور اس وقت ممکن تھا کہ بہت سے نقباء بھی جو کافی اثر رکھتے تھے، ان کا ساتھ دیتے اور عباسیوں کے لیے اپنی خلافت کو قائم رکھنا بےحد دشوار ہو جاتا۔
لہٰذا عبداللہ سفاح کے کاموں میں سب سے بڑا کارنامہ یہی سمجھنا چاہیے کہ اس نے تمام علویوں کو مال و دولت دے کر خاموش رکھا اور کسی کو مقابلہ پر کھڑا نہ ہونے دیا۔ عبداللہ سفاح کی وفات کے بعد ہی علوی خروج پر آمادہ ہو گئے، مگر اب خلافت عباسیہ مستحکم ہو چکی تھی۔
==================