مہدی بن منصور:
محمد المہدی بن منصور کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ بمقام ایدج ۱۲۶ھ میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں کا نام ام موسیٰ اردیٰ بنت منصور ممیری تھا۔ مہدی نہایت سخی، ہر دلعزیز، صادق الاعتقاد ومحبوب رعایا اور وجیہہ تھا۔ اس کے باپ منصور نے اس کو بہت سے علماء کی شاگردی اور صحبت میں رکھا۔ مہدی کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی کہ منصور نے اس کو عبدالجبار بن عبدالرحمن کی بغاوت فرو کرنے کے لیے ۱۴۱ھ میں خراسان کی طرف بھیجا۔ ۱۴۴ھ میں یہ خراسان سے واپس آیا تو منصور نے اس کی شادی سفاح کی لڑکی یعنی اپنی بھتیجی سے کی۔
۱۴۴ھ میں اس کو ولی عہد اول بنایا اور خراسان کے جنوبی و مغربی حصے کا عامل بنا کر رے کی طرف روانہ کیا۔ ۱۵۳ھ میں اس کو امیرالحج مقرر کیا۔ ۱۵۸ھ میں اپنے باپ کی وفات کے بعد بغداد میں تخت خلافت پر بیٹھا۔ بغداد میں جب لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو اس نے ممبر پر چڑھ کر خطبہ دیا کہ:
’’تم لوگ جس کو امیرالمؤمنین کہتے ہو وہ ایک بندہ ہوتا ہے، جب اسے کوئی آواز دیتا ہے تو جواب دیتا ہے اور جب اس کو حکم دیا جاتا ہے تو وہ بجا لاتا ہے، خدائے تعالیٰ ہی امیرالمؤمنین کا محافظ ہوتا ہے۔ میں خدائے تعالیٰ ہی سے مسلمانوں کی خلافت کے کام انجام دینے کے لیے مدد طلب کرتا ہوں۔
جس طرح تم لوگ اپنی زبان سے میر ی اطاعت کا اظہار کرتے ہو، اسی طرح دل سے بھی موافقت کرو تاکہ دین و دنیا کی بہتری کے امیدوار بن سکو۔ جو شخص تم میں عدل پھیلائے تم اس کی مخالفت کے لیے تیار نہ ہو۔ میں تم پر سے سختیاں اٹھادوں گا اور اپنی تمام عمر تم پر احسان کرنے اور جو تم میں مجرم ہو اس کو سزا دینے میں صرف کر دوں گا‘‘۔
مہدی نے خلیفہ ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ منصور کے قیدخانہ میں جس قدر قیدی تھے سب کو رہا کر دیا۔ صرف وہ قیدی رہا نہیں ہوئے جو باغی، غاصب یا خونی تھے۔ انہیں قیدیوں میں جو رہا ہوئے یعقوب بن داؤد بھی تھا، جو قیدی رہا نہیں ہوئے ان میں حسن بن ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن حسن بھی تھا، حسن اور یعقوب دونوں قتل ابراہیم کے بعد بصرہ سے گرفتار ہوکر ساتھ ہی قید ہوئے تھے جیساکہ گزشتہ اقساط میں بیان ہو چکا ہے۔
یعقوب کا باپ داؤد بنی سلیم کے آزاد غلاموں میں سے تھا۔ وہ خراسان میں نصر بن سیار کا میر منشی تھا۔ داؤد کے دو بیٹے یعقوب اور علی تھے۔ یہ دونوں بڑے عالم فاضل اور نہایت ہوشیار و عقلمند تھے، جب بنوعباس کی حکومت ہوئی تو بنی سلیم کی بے قدری ہوئی۔ ساتھ ہی یعقوب بن علی کی بھی جو بنوسلیم میں شامل تھے، کسی نے بات نہ پوچھی حالانکہ اپنی قابلیت کے اعتبار سے مستحق التفات تھے، جب محمد مہدی اور ابراہیم نے بنوعباس کے خلاف لوگوں کو دعوت دینی شروع کی تو یعقوب اس دعوت میں شریک ہو گیا اور لوگوں کو محمد مہدی وابراہیم کی طرف متوجہ کرتا رہا۔
بالآخر حسن بن ابراہیم کے ساتھ قید کر دیا گیا، اب قیدخانہ سے چھوٹ کر یعقوب کو معلوم ہوا کہ حسن بن ابراہیم قیدخانہ سے نکل بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے، اس نے اس کی اطلاع خلیفہ مہدی کو کی، مہدی نے حسن کو دوسرے قید خانہ میں تبدیل کردیا، مگر حسن وہاں سے بھی بھاگ نکلا۔
مہدی نے یعقوب کو بلا کر حسن کے متعلق مشورہ کیا، یعقوب نے کہا کہ امان فرمائیں تو میں اس کو حاضر کر سکتا ہوں، مہدی نے حسن کو امان دے دی اور یعقوب نے حسن کو حاضر کر دیا اور اس بات کی اجازت مہدی سے حاصل کر لی کہ حسن وقت بے وقت خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہے گا۔
چنانچہ حسن مہدی کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ مہدی نے حسن کو اپنا دینی بھائی بنا کر ایک لاکھ درہم مرحمت فرمائے، چند روز کے بعد مہدی نے اپنے وزیر ابوعبداللہ کو جو عہد ولی عہدی سے اس کا وزیر چلا آتا تھا معزول کر کے یعقوب بن داؤد کو اپنا وزیر بنا لیا، یعقوب اور حسن کی عزت افزائی سے مہدی نے اپنی منصف مزاجی اور قدر شناسی کا ثبوت پیش کیا اور اپنی محبت اپنے دشمنوں کے دلوں میں بھی قائم کر دی۔
خلافت عباسی کو سب سے زیادہ خطرہ محمد مہدی وابراہیم کی جماعت کے لوگوں سے تھا جو یحییٰ بن زید کی جماعت کے ساتھ مل کر زوال بنوعباس کے خواہاں تھے، مہدی نے یعقوب کو وزیر بنا کر ان تمام خطرات کا سدباب کردیا، کیونکہ یعقوب ان دونوں جماعتوں سے تعلق رکھتا تھا، اس نے ان لوگوں کو سلطنت میں عہدے دے دے کر مخالفت سے باز رکھا اور ان کے جوش مخالفت کو کم کر دیا۔
==================