جس زمانہ میں استاد سیس نے خروج کیا تو خراسان کا گورنر مہدی تھا۔ وہ مرو میں مقیم تھا۔ خازم بن خزیمہ اسی کے پاس مقیم تھا اور منصور کے حکم کے موافق حملہ آور ہوا تھا۔ اس فتنہ سے فارغ ہو کر مہدی، منصور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت تک فوج کا غالب عنصر عربی قبائل تھے اور ہر ایک معرکہ میں عربی ہی کی شمشیر خار اشگاف کے ذریعہ سے فتح و فیروزی حاصل ہوتی تھی۔ عجمیوں اور خرسانیوں کو عربوں کی ہمسری کا دعویٰ نہ تھا۔ ان عربی قبائل سے ہمیشہ اندیشہ رہتا تھا کہ اگر یہ مخالفت پر متحد ہو گئے تو حکومت کو ذرا سی دیر میں الٹ دیں گے۔
امام ابراہیم نے سب سے پہلے اس بات کو قبل از وقت محسوس کر کے عجمیوں کو طاقتور بنانے اور ان سے کام لینے کی پالیسی ایجاد کی تھی۔ اس کے جانشین بھی اسی خیال پر قائم رہے۔ چنانچہ عبداللہ سفاح نے ابو سلمہ کو قتل کرا کر خالد بن برمک کو جو بلخ کے آتش کدہ نو باہر کا مغ زادہ نو مسلم اور ابو مسلم کا ایک فوجی سردار تھا، اپنا وزیر بنایا تھا۔ چند روز کے بعد خالد بن برمک کسی ولایت کا والی بن کر چلا گیا اور ابو ایوب اس کی جگہ وزیر ہوا۔ اب منصور نے دوبارہ اس کو وزارت کا عہدہ عطا کر دیا۔
فوجوں کی سرداریوں اور صوبوں کی حکومت پر بھی مجوسی النسل لوگ مامور ہوتے تھے اور بہ تدریج ان کا اقتدار ترقی کر رہا تھا، لیکن عربوں کا فوجی عنصر ابھی تک غالب تھا۔
اس موقع پر بے اختیار اکبر بادشاہ ہند کی وہ پالیسی یاد آ جاتی ہے جو اس نے پٹھانوں کی طاقتور اور با اقتدار قوم سے محفوظ رہنے کے لیے ہندوستان میں اختیار کی تھی کہ پٹھانوں کے خطرہ کو بے حقیقت بنانے کے لیے ہندوﺅں کی مردہ قوم کو زندہ کرنا اور ان کو طاقتور بنانا ضروری سمجھا۔ حتیٰ کہ مان سنگھ کو ہندوستان کا سپہ سالار اعظم بنایا اور پٹھانوں کو ہر جگہ کمزور وناتواں بنانے کی کوشش کو جاری رکھا۔
عباسیوں نے بھی عربوں کی طاقت کو مٹا کر ان کی جگہ مجوسیوں اور ایرانیوں کو طاقتور بنایا کہ کوئی عربی قبیلہ اور عربی قبائل کی مدد سے کوئی علوی خروج پر آمادہ نہ ہو سکے۔ ( کس قدر الم انگیز معاملہ ہے کہ کلمہ گو افراد کی بجائے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات پیدا کیے گئے، ان سے دوستی کا دم بھرا گیا اور انہیں طاقتور کیا گیا۔ گویا یہ ان سانپوں کو پالنا تھا۔ پھر بعد میں خلافت اسلامیہ جیسے جیسے کمزور ہوتی گئی، اس کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا۔)
مہدی کے خراسان سے آنے کے اور منصور کی خدمت میں حاضر ہونے کے موقع پر فوج والوں کے طلب انعام میں بعض ایسی حرکات سرزد ہوئیں، جس سے آزاد مزاجی اور خود سری کا اظہار ہوتا تھا۔ یہ فوج والے سب عربی قبائل پر مشتمل تھے اور مجوسیوں کی طرح ضرورت سے زیادہ اپنے بادشاہ یا خلیفہ کی تعظیم و تکریم کے عادی نہ تھے۔ ان کی یہی بات عباسیوں کو خائف وترساں رکھتی تھی اور غالباً اسی آزاد مزاجی کی وجہ سے وہ ہر ایک نئی تحریک اور نئے مدعی خلافت کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے۔ اس موقع پر لشکر کی یہ حالت دیکھ کر کہ قیم بن عباس بن عبداللہ بن عباس نے عربوں کے قبائل مضر اور قبائل ربیعہ میں چونکہ رقابت پیدا ہو گئی ہے، اس لیے مناسب یہ ہے کہ فوج کے دو حصے کر کے قبائل مضر کو تو مہدی کے ماتحت رکھو، کیونکہ اہل خراسان قبائل مضر کے ہمدرد ہیں اور قبائل ربیعہ کو اپنے ماتحت رکھو، تمام یمنی ان کے ہوا خواہ ہیں۔ اس طرح دو جانب دو فوجی مرکز قائم ہو جائیں گے تو ایک کو دوسرے کا خوف رہے گا اور کوئی بغاوت کامیاب نہ ہونے پائے گی۔
منصور نے اس رائے کو پسند کیا اور اپنے بیٹے مہدی کے قیام کے واسطے بغداد کی مشرقی جانب رصافہ کی تعمیر کا سنہ ۱۵۱ھ میں حکم دیا کہ وہاں الگ ایک فوجی چھاؤنی قائم ہو جائے۔ اسی سال یعنی سنہ ۱۵۱ھ میں محمد اشعث نے بلاد روم کی طرف سے واپس آتے ہوئے راستے میں وفات پائی۔
سنہ ۱۵۳ھ میں منصور نے حکم جاری کیا کہ میری تمام رعایا لمبی ٹوپیاں اوڑھا کرے۔ یہ ٹوپیاں بانس اور پتے سے بنائی جاتی تھیں۔ اس زمانہ میں حبشیان ٹوپیوں کو اوڑھا کرتے تھے۔ سنہ ۱۵۴ھ میں زفر بن عاصم نے بلاد روم پر حملہ کیا۔ سنہ ۱۵۵ھ میں قیصر روم نے مسلمانوں کے آئے دن کے حملوں سے تنگ آ کر صلح کی درخواست پیش کی اور جزیہ دینے کا اقرار کیا۔
==================