مختلف واقعات:
محمد مہدی اور اس کے بھائی کے قتل سے فارغ ہو کر منصور نے بصرہ کی حکومت سالم بن قتیبہ باہلی کو دی اور موصل کی حکومت پر اپنے لڑکے جعفر کو بھیجا اور اس کے ساتھ حرث بن عبداللہ کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا۔
امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں لوگوں کو محمد مہدی کی بیعت کرنے کی ترغیب دی تھی۔ ان کو کوڑوں سے پٹوایا گیا۔ امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے عراق میں ابراہیم بن عبداللہ کی حمایت میں فتویٰ دیا تھا۔ اس لیے ان کو منصور نے گرفتار کرا کر بلوایا اور بغداد میں لے جا کر کہ اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا، قید کر دیا۔ اس قید میں اینٹوں کے گنوانے کی خدمت بطور مشقت ان سے لی جاتی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ منصور نے ان کو عہدہ قضا سپرد کرنا چاہا۔ انہوں نے جب انکار کیا تو منصور نے خشت شماری کا کام ان کے سپرد کیا۔ اسی حالت میں سنہ ۱۵۰ھ تک مصروف و مقید رہ کر وہ فوت ہو گئے۔ ان کے علاوہ اور علماء نے بھی مثلاً ابن عجلان اور عبدالحمید بن جعفر وغیرہ نے محمد مہدی اور ان کے بھائی ابراہیم کی بیعت کے لیے فتوے دیے تھے، ان سب علماء کو بھی اسی قسم کی سزائیں دی گئیں۔
سنہ ۱۴۶ھ میں علاقہ خزر کے ترکوں نے عَلم بغاوت بلند کیا اور باب الابواب سے آرمینیا تک مسلمانوں کو قتل و غارت کرتے ہوئے چلے آئے۔ اسی سال جزیرہ قبرص پر مسلمانوں نے بحری حملہ کیا۔ سیستان کے علاقہ میں خارجیوں نے شورش و بغاوت کی تو منصور نے یمن کی گورنری سے تبدیل کر کے معن بن زائدہ کو سیستان کی حکومت پر بھیج دیا۔ وہاں معن بن زائدہ نے تمام شورش و فساد کو فرو کیا، سنہ ۱۵۱ھ تک وہاں رہا، آکر دھوکے سے خارجیوں نے اس کو قتل کر دیا۔
عبداللہ اشتر بن محمد مہدی:
جب محمد مہدی نے خروج کیا تو منصور کی طرف سے سندھ کا گورنر عمر بن حفص بن عثمان بن قبیصہ بن ابی صفرہ ملقب بہ ہزار مرد تھا۔ محمد مہدی نے خروج کر کے اپنے بیٹے عبداللہ معروف بن اشتر کو اس کے چچا ابراہیم کے پاس بصرہ کی طرف روانہ کر دیا تھا۔ یہاں پہنچ کر عبداللہ اشتر نے اپنے چچا کے مشورے سے ایک تیز رفتار اونٹنی لے کر سندھ کا قصد کیا، کیونکہ عمر بن حفص حاکم سندھ سے اعانت و ہمدردی کی توقع تھی۔
عبداللہ اشتر نے سندھ میں پہنچ کر عمر بن حفص کو دعوت دی اور اس نے اس دعوت کو قبول کر کے محمد مہدی کی خلافت کو تسلیم کر لیا اور عباسیوں کے لباس اور نشانات کو چاک کر کے خطبہ میں محمد مہدی کا نام داخل کر دیا۔ اسی عرصہ میں عمر بن حفص کے پاس محمد مہدی کے مارے جانے کی خبر پہنچی۔ اس نے عبداللہ اشتر کو اس حادثہ سے اطلاع کر کے تعزیت کی۔ عبداللہ اشتر نے کہا کہ اب تو مجھ کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ میں کہاں جاؤں اور کیا کروں؟
سندھ کی حالت اس زمانہ میں یہ تھی کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے راجہ جو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں مسلمان ہو گئے تھے، وہ اپنی اپنی ریاستوں پر فرماں روائی کرتے تھے اور خلیفہ وقت کی سیادت کو تسلیم کر کے تمام اسلامی شعائر کے پابند اور اپنے حقوق حکمرانی پر قائم تھے۔ عمر بن حفص نے عبداللہ اشتر کو مشورہ دیا کہ تم سندھ کے فلاں بادشاہ کی مملکت میں چلے جاؤ۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر قربان ہوتا ہے اور ایفائے عہد میں مشہور ہے۔ یقین ہے کہ تمہارے ساتھ بڑی عزت و محبت سے پیش آئے گا، عبداللہ اشتر نے رضا مندی ظاہر کی اور عمر بن حفص نے اس بادشاہ سے خط وخطابت کر کے عبداللہ اشتر کی نسبت عہد نامہ لکھوا کر منگوا لیا اور عبداللہ کو اس طرف روانہ کر دیا۔
سندھ کے اس بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی عبداللہ اشتر سے کر دی۔ سنہ ۱۵۱ھ تک عبداللہ اشتر اسی جگہ رہا اور اس عرصہ میں قریباً چار سو عرب اطراف و جوانب سے کھنچ کھنچ کر عبداللہ اشتر کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ منصور کو اتفاقاً یہ حال معلوم ہو گیا کہ عبداللہ اشتر سندھ کے ایک بادشاہ کے یہاں مقیم ہے اور عربوں کی ایک چھوٹی سی جمعیت اس کے پاس موجود ہے۔
منصور نے سنہ ۱۵۱ھ میں عمر بن حفص کو سندھ کی گورنری سے بلا کر مصر کی حکومت پر بھیج دیا اور سندھ کی گورنری پر ہشام بن عمرو تغلبی کو روانہ کیا۔ رخصت کرتے وقت تاکید کی کہ عبداللہ اشتر کو جس طرح ممکن ہو، گرفتار کر لینا۔ اگر سندھ کا بادشاہ اس کے دینے سے انکار کرے تو فوراً اس پر چڑھائی کر دینا۔ ہشام بن عمرو نے ہر چند کوشش کی، مگر سندھ کا وہ بادشاہ عبداللہ اشتر کے دینے پر رضا مند نہ ہوا۔ آخر طرفین سے لڑائی پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ عبداللہ اشتر جس حصہ ملک میں مقیم تھا، اس طرف ہشام بن عمرو کے بھائی سفیح نے فوج کشی کی۔ اتفاقاً ایک روز عبداللہ اشتر صرف دس سواروں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے سیر کرتا ہوا نکل گیا۔ وہاں سفیح کی فوج یکایک سامنے آ گئی۔ سفیح نے عبداللہ کو گرفتار کرنا چاہا اور عبداللہ اشتر اور اس کے ہمراہیوں نے مقابلہ کیا، لڑائی ہونے لگی۔ آخر عبداللہ اشتر اور اس کے ہمراہی سب کے سب مارے گئے۔ ہشام بن عمرو نے اس کی اطلاع منصور کو دی۔ منصور نے لکھا کہ اس بادشاہ کے ملک کو ضرور پامال کر دیا جائے۔
چنانچہ لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ ہشام نے اس کے تمام ملک پر قبضہ کر لیا۔ عبداللہ اشتر کی بیوی مع اپنے لڑکے کے گرفتار ہو کر منصور کے پاس بھیجی گئی۔ منصور نے عبداللہ اشتر کے لڑکے اور بیوی کو مدینہ بھیج دیا کہ ان کے خاندان والوں کے سپرد کر دیے جائیں۔
==================