تفاخر نسبی کے معاملہ میں بے شک محمد مہدی کی طرف سے ابتدا ہوئی تھی اور منصور نے جو کچھ لکھا تھا جواباً لکھا تھا، مگر منصور اس کے جواب میں حد سے بڑھ گیا تھا۔ محمد مہدی نے عباس رضی اللہ عنہ کی نسبت کچھ نہیں لکھا تھا۔ منصور نے بلا وجہ علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخانہ الفاظ لکھے۔ منصور نے یہ بھی سخت بہتان باندھا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنھا کو خلافت حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت باہر نکالا۔ حسن رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی منصور نے بڑی بدتمیزی اور گستاخی کی تھی۔ انہوں نے خلافت کو فروخت نہیں کیا، بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے دو گروہوں میں جو آپس میں لڑتے تھے، اتفاق اور صلح کو قائم کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک پیش گوئی کو پورا کیا تھا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے ضرور ابی طالب کی امداد کی تھی اور عقیل کو اپنے پاس رکھ کر پرورش کرتے تھے، لیکن ایسی باتوں کا زبان پر لانا اور طعنہ دینا شرفاء کا کام نہیں، بلکہ اس قسم کے احسانات کو زبان پر لانا کمینہ پن کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ منصور نے ان باتوں کو زبان پر لا کر اپنی روش کا اظہار کر دیا تھا۔
محمد مہدی نے مدینہ کے انتظام سے فارغ ہو کر محمد بن حسن بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر کو مکہ کی طرف روانہ کیا۔ قاسم بن اسحاق کو یمن کی امارت پر اور موسیٰ بن عبداللہ کو شام کی امارت پر مامور کر کے رخصت کیا۔ چنانچہ محمد بن حسن اور قاسم بن اسحاق دونوں مدینہ سے ساتھ ہی روانہ ہوئے۔ عامل مکہ نے مقابلہ کر کے شکست کھائی اور محمد بن حسن نے مکہ پر قبضہ کر لیا۔
منصور نے مندرجہ بالا خط روانہ کرنے کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کو محمد مہدی سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ عیسیٰ کے ساتھ محمد بن سفاح، کثیر بن حصین عبدی اور حمید بن قحطبہ کو بھی روانہ کیا۔ روانگی کے وقت عیسیٰ بن موسیٰ اور دوسرے سرداروں کو یہ تاکید کر دی کہ اگر تم کو محمد مہدی پر کامیابی حاصل ہو جائے تو اس کو امان دے دینا اور قتل نہ کرنا اور اگر وہ رو پوش ہو جائے تو اہل مدینہ کو گرفتار کر لینا۔ وہ اس کے حالات سے خوب واقف ہیں۔
آل ابی طالب میں سے جو شخص تمہاری ملاقات کو آئے، اس کا نام لکھ کر میرے پاس بھیج دینا اور جو شخص نہ ملے، اس کا مال و اسباب ضبط کر لینا۔ عیسیٰ بن موسیٰ جب مقام فید میں پہنچا تو اس نے خطوط بھیج کر مدینہ کے چند اشخاص کو اپنے پاس طلب کیا۔ چنانچہ عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب، اس کے بھائی عمر بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب اور ابو عقیل محمد بن عبداللہ بن عقیل مدینہ سے نکل کر عیسیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔
محمد مہدی کو عیسیٰ کے آنے کی خبر پہنچی تو اس نے اپنے مصاحبوں سے مشورہ لیا کہ ہم کو مدینہ سے نکل کر مقابلہ کرنا چاہیے یا مدینہ میں رہ کر مدافعت کرنی چاہیے؟ مشیروں میں اختلاف رائے ہوا تو محمد مہدی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا و پیروی کے خیال سے اسی خندق کو کھودنے کا حکم دیا جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ احزاب میں کھدوایا تھا۔ اسی اثناء میں عیسیٰ بن موسیٰ نے مقام اعوض میں پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ محمد مہدی نے مدینہ والوں کو باہر نکل کر مقابلہ کرنے سے منع کر دیا تھا اور کوئی شخص مدینہ سے باہر نہیں نکل سکتا تھا، لیکن جب عیسیٰ بن موسیٰ قریب پہنچا تو مدینہ سے نکلنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ محمد مہدی کی غلطی تھی کہ پہلے حکم امتناعی کو منسوخ کر دیا۔
اہل مدینہ کا ایک جم غفیر مع اہل و عیال نکل کے بہ غرض حفاظت پہاڑوں کی طرف چلا گیا اور مدینہ میں بہت ہی تھوڑی آدمی محمد مہدی کے پاس رہ گئے۔ اس وقت اس کو اپنی غلطی محسوس ہوئی اور ان لوگوں کے واپس لانے کے لیے آدمی بھیجے مگر وہ واپس نہ آئے۔ عیسیٰ نے اعوض سے کوچ کر کے مدینہ منورہ سے چار میل دور پر قیام کیا اور ایک دستہ فوج کو مکہ کے راستے پر متعین کر دیا کہ بعد ہزیمت محمد مہدی مکہ کی طرف نہ جا سکیں۔ اس کے بعد محمد مہدی کے پاس پیغام بھیجا کہ خلیفہ منصور تم کو امان دیتے اور کتاب و سنت کے فیصلہ کی طرف بلاتے ہیں اور بغاوت کے انجام سے ڈراتے ہیں۔
محمد مہدی نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں جو قتل کے خوف سے کبھی نہیں بھاگا۔ ۱۲ رمضان المبارک سنہ ۱۴۵ھ کو عیسیٰ بن موسیٰ آگے بڑھ کر مقام جرف میں آ کر خیمہ زن ہوا۔ ۱۴ رمضان المبارک کو اس نے ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا کہ: ’’اے اہل مدینہ! میں تم کو امان دیتا ہوں، اگر تم میرے اور محمد مہدی کے درمیان حائل نہ ہو اور غیر جانبدار ہو جاؤ۔‘‘ اہل مدینہ اس آواز کو سن کر گالیاں دینے لگے۔ عیسیٰ واپس چلا گیا۔ دوسرے دن پھر اسی مقام پر لڑائی کے ارادے سے گیا اور اپنے سرداروں کو مدینہ کے چاروں طرف پھیلا دیا۔ محمد مہدی بھی مقابلہ کے لیے میدان میں نکلا۔ ان کا عَلم عثمان بن محمد بن خالد بن زبیر ( رضی اللہ عنہ ) کے ہاتھ میں اور ان کا شعار
’’احد احد‘‘ تھا۔
محمد مہدی کی طرف سے ابو غلمش سب سے پہلے میدان میں نکلا اور للکار کر اپنا ہم نبرد طلب کیا۔ عیسیٰ کی طرف سے یکے بعد دیگرے کئی نامور بہادر اس کے مقابلہ کو نکلے اور سب مارے گئے۔ اس کے بعد جنگ مغولبہ شروع ہوئی۔ طرفین سے بہادری کے نہایت اعلیٰ اور انتہائی نمونے دکھائے گئے۔ ان لڑنے والی دونوں فوجوں کے سپہ سالاروں نے بھی شمشیر زنی اور صف شکنی میں حیرت انگیز جواں مردی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد عیسیٰ کے حکم سے حمید بن قحطبہ نے پیادوں کو لے کر خندق کے قریب کی دیوار کا رخ کیا۔ محمد مہدی کے ہمراہیوں نے تیر بازی سے اس کو روکنا چاہا مگر حمید نے اس تیر بازی میں اپنے آپ کو مستقل رکھ کر پیش قدمی کو جاری رکھا اور بڑی مشکل سے دیوار تک پہنچ کر اس کو منہدم کر دیا اور خندق کو بھی طے کر کے محمد مہدی کی فوج سے دست بہ دست لڑائی شروع کر دی۔
عیسیٰ کو موقع مل گیا، اس نے فوراً خندق کو کئی مقامات سے پاٹ کر راستے بنا دیے اور سواران لشکر خندق کو عبور کر کے محمد مہدی کی فوج پر حملہ آور ہوئے اور بڑے گھمسان کی لڑائی ہونے لگی۔ محمد مہدی کی فوج بہت ہی تھوڑی تھی اور حملہ آور لشکر تعداد میں کئی گنا زیادہ اور آسمان حرب و اسلحہ جنگ سے خوب آراستہ تھا، مگر صبح سے لے کر نماز عصر تک برابر تلوار چلتی رہی۔ محمد مہدی نے اپنے ہمراہیوں کو عام اجازت دی کہ جس کا جی چاہے وہ اپنی جان بچا کر چلا جائے۔ محمد مہدی کے ہمراہیوں نے بار بار اور بہ اصرار کہا کہ اس وقت آپ اپنی جان بچا کر بصرہ یا مکہ کی طرف چلے جائیں اور پھر سامان وجمعیت فراہم کر کے میدانی جنگ کریں، مگر محمد مہدی نے ہر ایک کو یہی جواب دیا کہ تم اگر اپنی جان بچانا چاہو تو چلے جاؤ، لیکن میں دشمن کے مقابلے سے فرار نہیں ہو سکتا۔ آخر محمد مہدی کے ہمراہ کل تین سو آدمی رہ گئے۔ اس وقت اس کے ہمراہیوں میں سے عیسیٰ بن خضیر نے جا کر وہ رجسٹر جس میں بیعت کرنے والوں کے نام درج ہوتے تھے، جلا دیا اور قید خانہ میں آ کر رباح بن عثمان اور اس کے بھائیوں کو قتل کیا۔ محمد بن قسریٰ نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا تھا، وہ بچ گیا۔
یہ کام کر کے عیسیٰ بن خضیر، محمد مہدی کے پاس آ کر پھر لڑنے لگا۔ اب محمد مہدی کے ہمراہیوں نے اپنی سواریوں کے پاؤں کاٹ ڈالے اور تلواروں کی نیامیں توڑ کر پھینک دیں اور مرنے مارنے پر قسمیں کھا کر دشمنوں پر حملہ آور ہوئے۔ یہ حملہ ایسا سخت اور ہیبت ناک تھا کہ عیسیٰ کہ فوج شکست کھا کر میدان سے بھاگی مگر اس کی فوج کے چند آدمی پہاڑ پر چڑھ گئے اور پہاڑ کے دوسری طرف اتر کر مدینہ میں آ گئے اور ایک عباسی عورت کی سیاہ اوڑھنی لے کر اس کو مسجد کے منارہ پر پھریرہ کی طرح اڑایا۔ یہ حالت دیکھ کر محمد مہدی کے ہمراہیوں کے اوساطن خطا ہو گئے اور یہ سمجھ کر کہ عیسیٰ کی فوج نے مدینہ پر قبضہ کر لیا ہے، پیچھے کو لوٹے۔ عیسیٰ کے مفرور سپاہیوں کو موقع مل گیا۔ وہ سمٹ کر پھر مقابلہ پر آئے اور اس کے لشکر کی ایک جماعت بنو غفار کے محلہ کی طرف سے مدینہ میں داخل ہو کر مدینہ کی طرف سے محمد مہدی کے مقابلہ کو نکل آئی۔
یہ تمام صورتیں بالکل خلاف امید واقع ہوئیں۔ محمد مہدی کو یہ بھی امید نہ تھی کہ بنو غفار دشمنوں کو راستہ دے دیں گے۔ یہ دیکھ کر محمد مہدی نے آگے بڑھ کر حمید بن قحطبہ کو مقابلہ کے لیے للکارا، لیکن حمید مقابلہ پر نہ آیا۔ محمد مہدی کے ہمراہیوں نے پھر ان دشمنوں پر حملہ کیا۔ عیسیٰ بن خضیر بڑی بہادری اور جانبازی سے لڑ رہا تھا۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے آگے بڑھ کر اس کو پکارا اور کہا کہ میں تم کو امان دیتا ہوں، تم لڑنا چھوڑ دو، لیکن عیسیٰ بن خضیر نے اس کی بات پر مطلق توجہ نہ کی اور برابر مصروف قتال رہا۔ آخر لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہو کر گر پڑا۔ محمد مہدی اس کی لاش پر لڑنے لگا۔ عیسیٰ بن موسیٰ کے لشکری ہر چہار طرف سے حملہ آور تھے اور وہ بڑی بہادری سے حملہ آوروں کو جواب دیتا اور پسپا کر دیتا تھا۔
محمد مہدی نے اس وقت وہ بہادری دکھائی اور اپنی شجاعت و سپہ گری کی وہ دھاک بٹھائی کہ عیسیٰ بن موسیٰ کے لشکر میں کسی کو اس کے مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ آخر ایک شخص نے پیچھے سے لپک کر اس کی کمر میں ایک نیزہ مارا، اس زخم کے صدمے سے وہ جوں ہی ذرا جھکا تو حمید بن قحطبہ نے آگے سے لپک کر اس کے سینہ میں نیزہ مارا۔ آگے اور پیچھے سے دو نیزے جب جسم کے پار ہوگئے تو وہ زمین پر گر پڑا۔ قحطبہ نے فوراً گھوڑے سے اتر کر اس کا سر اتار لیا اور عیسیٰ بن موسیٰ کے پاس لے کر آیا۔ اس شیر نر کے قتل ہوتے ہی مدینہ عیسیٰ بن موسیٰ کے قبضہ و تصرف میں تھا۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے محمد مہدی کا سر اور فتح کا بشارت نامہ محمد بن ابی الکرام بن عبداللہ بن علی بن عبداللہ بن جعفر اور قاسم بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ہاتھ منصور کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ حادثہ ۱۵ رمضان المبارک یوم دو شنبہ سنہ ۱۴۵ھ عصر و مغرب کے درمیان وقوع پزیر ہوا۔ محمد مہدی کی لاش کو عیسیٰ بن موسیٰ نے مدینہ وثنیۃ الودا
ع کے درمیان سولی پر لٹکا دیا۔ اس کی بہن زینب نے اجازت حاصل کر کے اس لاش کو لے کر بقیع میں دفن کر دیا۔
اس لڑائی میں محمد مہدی کا بھائی موسیٰ بن عبداللہ، حمزہ بن عبداللہ بن محمد بن علی بن حسین اور علی پسران زید بن علی بن حسین بن علی اور زید پسران محمد بن زید پسران حسن بن زید بن حسن، محمد مہدی کے ساتھ تھے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ آخر الذکر علی و زید کے باپ حسن بن زید بن حسن، منصور کے مددگار تھے۔ اسی طرح بہت سے ہاشمی وعلوی ایسے تھے کہ باپ ایک طرف مصروف جنگ ہے تو بیٹا دوسری طرف سے لڑ رہا ہے۔ غالباً بنو امیہ کے قتل اور ان کی بربادی کے نظارے دیکھ کر بہت سے علوی سہم گئے تھے۔ جیسا کہ علی بن حسین (زین العابدین) کربلا کا نظارہ دیکھ کر اس قدر متأثر تھے کہ کبھی بنو امیہ کے خلاف کوئی کام نہیں کیا اور بنو امیہ کی اہمیت و موافقت ہی کا اظہار فرماتے رہے۔
اسی طرح علویوں کے اکثر با اثر افراد بنو عباس کی مخالفت کو موجب تباہی جاننے لگے تھے۔ محمد مہدی کی شکست و ناکامی محض اس وجہ سے ہوئی کہ خود اس کے خاندان والوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا، اہل خاندان کے ساتھ نہ دینے کا یہ اثر ہوا کہ اور بھی بہت سے لوگ اس سے الگ رہے۔ چنانچہ محمد مہدی نے جس وقت مدینہ میں لوگوں سے بیعت لی اور رباح بن عثمان کو قید کر کے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر کو بھی جو معتبر آدمی تھے، بیعت کے لیے بلوایا۔ انہوں نے جواب میں کہلوا بھجوایا کہ ’’بھتیجے! تم مارے جاؤ گے، میں تمہاری بیعت کیسے کروں۔‘‘
اسماعیل بن عبداللہ کے اس جواب کو سن کر بعض اشخاص جو بیعت کر چکے تھے، پھر گئے اور حمادہ بنت معاویہ نے اسماعیل بن عبداللہ کے پاس آ کر کہا کہ آپ کے اس کلام سے بہت سے آدمی محمد مہدی سے جدا ہو گئے ہیں، مگر میرے بھائی ابھی تک ان کے ساتھ ہیں۔ مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی نہ مارے جائیں۔ غرض رشتہ داروں اور خاندان والوں کی علیحدگی نے محمد مہدی کو زیادہ طاقتور نہ ہونے دیا اور نہ بہت زیادہ ممکن تھا کہ خلافت پھر حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں آ جاتی۔ اگر محمد مہدی اس وقت طرح دے جاتا اور مدینہ سے بچ کر نکل جاتا یا ابھی خروج میں جلدی نہ کرتا اور اپنے بھائی ابراہیم کے خروج کا انتظار کرکے دونوں بھائی ایک ہی وقت میں نکلتے تو بھی کامیابی یقینی تھی، مگر منصور اور خاندان عباسیہ کی خوش قسمتی تھی کہ عباسی لشکر کو محمد اور ابراہیم دونوں کا مقابلہ یکے بعد دیگرے کرنا پڑا اور ان کی طاقت تقسیم ہونے سے بچ گئی۔
==================