جب منصور نے عبداللہ بن حسن اور دوسرے افراد آل حسن رضی اللہ عنہ کو قتل کرادیا تو محمد مہدی نے اس خبر کو سن کر زیادہ انتظار مناسب نہ سمجھا، ان کو یہ بھی یقین تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دینے اور منصور کی خلع خلافت کرنے کے لیے ہر جگہ تیار ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے مدینہ کے دوستوں سے خروج کا مشورہ کیا، اتفاقاً عامل مدینہ رباح کو جاسوسوں کے ذریعہ اس کی اطلاع ہو گئی کہ آج محمد مہدی خروج کرنے والے ہیں، اس نے جعفر بن محمد بن حسین رضی اللہ عنھما اور حسین بن علی بن حسین اور چند قریشیوں کو بلا کر کہا کہ اگر محمد مہدی نے خروج کیا تو میں تم کو قتل کر دوں گا، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تکبیر کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ محمد مہدی رحمہ اللہ تعالی نے خروج کیا ہے، ابتداً ان کے ساتھ صرف ڈیڑھ سو آدمی تھے، انہوں نے سب سے پہلے قید خانہ کی طرف جا کر محمد بن خالد بن عبداللہ قسری اور اس کے بھتیجے نذیر بن یزید بن خالد اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ تھے آزاد کیا، پھر دارالامارۃ کی طرف آکر رباح اور اس کے بھائی عباس اور ابن مسلم بن عقبہ کو گرفتار کر کے قید کر دیا، اس کے بعد مسجد کی طرف آئے اور خطبہ دیا، جس میں منصور کی بری عادات اور افعال مجرمانہ کا ذکر کر کے لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کے برتاؤ کا وعدہ کیا اور ان سے امداد کے خواہاں ہوئے۔
اس کے بعد مدینہ کے عہدہ قضا پر عثمان بن محمد بن خالد بن زہیر کو اسلحہ خانہ پر عبدالعزیز بن مطلب بن عبداللہ مخزومی کو محکمہ پولیس پر عثمان بن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب کو مقرر کیا اور محمد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس ملامتانہ پیغام بھیجا کہ تم کیوں گھر میں چھپ کر بیٹھ رہے؟ محمد بن عبدالعزیز نے امداد کا وعدہ کیا، اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر نے محمد مہدی کی بیعت نہیں کی، اسی طرح اور بھی چند شخصوں نے بیعت سے اعتراض کیا۔
محمد مہدی رحمہ اللہ تعالیٰ خروج اور رباح کے مقید ہونے کے نو دن بعد منصور کے پاس خبر پہنچی، وہ یہ سن کر سخت پریشان ہوا، فوراً کوفہ میں آیا اور کوفہ سے ایک خط بطور امان نامہ محمد مہدی کے نام لکھ کر روانہ کیا، اس خط میں منصور نے لکھا تھا کہ:
{اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ٭ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} (المائدۃ :۵/۳۳‘۳۴)
میرے اور تمہارے درمیان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد ومیثاق اور ذمہ ہے کہ میں تم کو تمہارے اہل خاندان کو اور تمہارے متبعین کو جان اور مال و اسباب کی امان دیتا ہوں، نیز اب تک تم نے جو خونریزی کی ہو، یا کسی کا مال لے لیا ہو اس سے بھی درگزر کرتا ہوں اور تم کو ایک لاکھ درہم اور دیتا ہوں، اس کے علاوہ جو کوئی تمہاری اور حاجت ہو گی وہ بھی پوری کر دی جائے گی، جس شہر کو تم پسند کرو گے اسی میں مقیم کئے جاؤ گے، جو لوگ تمہارے شریک ہیں ان کو امن دینے کے بعد ان سے کبھی مواخذہ نہ کروں گا، اگر تم ان باتوں کے متعلق اپنا اطمینان کرنا چاہو تو اپنے معتمد کو میرے پاس بھیج کر مجھ سے عہدنامہ لکھوالو اور ہر طرح مطمئن ہو جاؤ۔
یہ خط جب محمد مہدی کے پاس پہنچا تو اس نے جواب میں لکھا کہ :
{طٰسٓمّٓ ٭ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ٭ نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ٭ اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ھُمْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ٭ وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ ٭ وَ نُمَکِّنَ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَ جُنُوْدَھُمَا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ} (القصص : ۲۸/۱ تا ۶)
’’ہم تمہارے لیے ویسا ہی امان پیش کرتے ہیں جیسا کہ تم نے ہمارے لیے پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہمارا حق ہے، تم ہمارے ہی سبب سے اس کے مدعی ہوئے اور ہمارے ہی گروہ والے بن کر حکومت حاصل کرنے کو نکلے اور اسی لیے کامیاب ہوئے۔ ہمارا باپ علی امام تھا۔ تم اس کی ولایت کے وارث کس طرح ہو گئے؟ حالانکہ ان کی اولاد موجود ہے، تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم جیسے شریف و صحیح النسب لوگوں نے حکومت کی خواہش نہیں کی، ہم ملعونوں اور مردودوں کے بیٹے نہیں ہیں، بنو ہاشم میں کوئی شخص بھی قرابت و سابقیت و فضیلت میں ہمارا ہمسر نہیں، زمانہ جاہلیت میں ہم فاطمہ بن عمرو کی اولاد سے ہیں اور اسلام میں فاطمہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو تم سے برتر و بہتر بنایا ہے۔ نبیوں میں ہمارے باپ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو سب سے افضل ہیں اور سلف میں علی رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ازواج مطہرات میں سب سے پہلے خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا نے قبلہ کی طرف نماز پڑھی۔ لڑکیوں میں فاطمہ سیدۃ النساء رضی اللہ عنھا دختر رسول اللہ ہیں جن کو جنت کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ مولودین اسلام میں حسن و حسین رضی اللہ عنھما ہیں جو اہل جنت کے سردار ہیں۔ ہاشم سے علی رضی اللہ عنہ کا دوہرا سلسلہ قرابت ہے اور حسن رضی اللہ عنہ کا عبدالمطلب سے دوہرا سلسلہ قرابت ہے۔ میں بہ اعتبار نسب کے بہترین بنی ہاشم ہوں۔ میرا باپ بنی ہاشم کے مشاہیر میں سے ہے۔ مجھ میں کسی عجمی کی آمیزش نہیں اور نہ مجھ میں کسی لونڈی باندی کا اثر ہے۔ میں اپنے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اگر تم میری اطاعت اختیار کر لو گے تو میں تم کو تمہاری جان و مال کی امان دیتا ہوں اور ہر ایک بات سے جس کے تم مرتکب ہوچکے ہو، درگزر کرتا ہوں، مگر کسی حد کا حدود اللہ سے یا کسی مسلمان کے حق یا معاہدہ کا میں ذمہ دار نہ ہوں گا، کیونکہ اس معاملہ میں جیسا کہ تم جانتے ہو، میں مجبور ہوں۔ یقینا میں تم سے زیادہ مستحق خلافت اور عہد کا پورا کرنے والا ہوں۔ تم نے مجھ سے پہلے بھی چند لوگوں کو امان اور قول دیا تھا۔ پس تم مجھے کون سی امان دیتے ہو؟ آیا امان ابن ہبیرہ کی یا امان اپنے چچا عبداللہ بن علی کی یا امان ابو مسلم کی؟‘‘
منصور کے پاس جب یہ خط پہنچا تو اس نے بہت پیچ و تاب کھایا اور ذیل کا خط لکھ کر محمد مہدی کے پاس روانہ کیا :
’’میں نے تمہارا خط پڑھا۔ تمہارے فخر کا دارومدار عورتوں کی قرابت پر ہے، جس سے جاہل بازاری لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو چچاؤں، باپوں اور ولیوں کی طرح نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے چچا کو باپ کا قائم مقام بنایا ہے اور اپنی کتاب میں اس کو قریب ترین ماں پر مقدم کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ عورتوں کی قرابت کا پاس و لحاظ کرتا تو آمنہ (مادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ) جنت میں داخل ہونے والوں کی سردار ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق جس کو چاہا، برگزیدہ کیا اور تم نے جو فاطمہ ام ابی طالب کا ذکر کیا ہے تو اس کی حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کسی لڑکے اور کسی لڑکی کو اسلام نصیب نہیں کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ مردوں میں سے کسی کو بہ وجہ قرابت برگزیدہ کرتا تو عبداللہ بن عبدالمطلب کو اور بے شک وہ ہر طرح بہتر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لیے جس کو چاہا، با اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ} (القصص : ۲۸/۵۶)
اور جب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چار چچا موجود تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ:
{وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ} (الشعرا ۲۶ : ۲۱۴)
نازل فرمائی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور دین حق کی طرف بلایا۔ ان چاروں میں سے دو نے اس دین حق کو قبول کر لیا، جن میں سے ایک میرا باپ تھا اور دو نے دین حق کے قبول کرنے سے انکار کیا۔ ان میں سے ایک تمہارا باپ (ابوطالب) تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا سلسلہ ولایت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقطع کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم میں اور ان دونوں میں کوئی عزیزداری اور میراث قائم نہ کی۔
حسن رضی اللہ عنہ کی بابت جو تم نے یہ لکھا ہے کہ عبدالمطلب سے ان کا دوہرا سلسلہ قرابت ہے اور پھر تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دوہرا رشتہ قرابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیر الاولین و الآخرین ہیں۔ ان کو ہاشم و عبدالمطلب سے ایک پدری تعلق تھا۔ تمہارا یہ خیال ہے کہ تم بہترین بنو ہاشم ہو اور تمہارے ماں باپ ان میں زیادہ مشہور تھے اور تم میں عجمیوں کا میل اور کسی لونڈی کا لگاؤ نہیں ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم نے کل بنو ہاشم سے اپنے آپ کو زیادہ اچھا بنایا ہے۔ ذرا غور تو کرو! تم پر تف ہے۔ کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دو گے۔ تم نے حد سے زیادہ تجاوز کیا اور اپنے آپ کو اس سے بہتر بتایا جو تم سے ذات و صفات میں بہتر ہے، یعنی ابراہیم بن رسول اللہ بالخصوص تمہارے باپ کی اولاد میں کوئی بہتر و افضل اور اہل فضل سوائے کنیز زادوں کے نہیں۔
وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تم میں علی بن حسین یعنی امام زین العابدین سے افضل کوئی شخص پیدا نہیں ہوا اور وہ کنیز کے لڑکے تھے اور بلاشبہ تمہارے دادا حسن بن حسن
سے بہتر ہیں۔ ان کے بعد تم میں کوئی شخص محمد بن علی کی مانند پیدا نہیں ہوا۔ ان کی دادی کنیز تھیں اور وہ تمہارے باپ سے بہتر ہیں۔ ان کے لڑکے جعفر تم سے بہتر ہیں اور ان کی دادی کنیز تھیں۔ تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے:
{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ} (الاحزاب ۳۳:۴۰)
ہاں تم ان کی لڑکی کے لڑکے ہو اور بے شک یہ قرابت قریبہ ہے، مگر اس کو میراث نہیں پہنچ سکتی اور نہ یہ ولایت کی وارث ہو سکتی ہے اور نہ اس کو امامت جائز ہے۔ پس اس قرابت کے ذریعہ سے تم کس طرح وارث ہو سکتے ہو؟ تمہارے باپ نے ہر طرح اس کی خواہش کی تھی۔ فاطمہ( رضی اللہ عنھا ) کو دن میں نکالا، ان کی بیماری کو چھپایا اور رات کے وقت ان کو دفن کیا، مگر لوگوں نے سوائے شیخین رضی اللہ عنھما (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ) کے کسی کو منظور نہیں کیا۔ تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ نانا، ماموں اور خالہ مورث نہیں ہوتے۔
پھر تم نے علی رضی اللہ عنہ اور ان کے سابق بالاسلام ہونے کی وجہ سے فخر کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات کے وقت دوسرے (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں لوگ ایک کے بعد دوسرے کو امام بناتے گئے اور ان کو منتخب نہ کیا۔ حالانکہ یہ بھی ان چھ اشخاص میں سے تھے، لیکن سبھوں نے ان کو اس امر کے قابل نہ سمجھ کر چھوڑ دیا اور اس معاملہ میں ان کو حق دار نہ سمجھا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے تو ان پر عثمان رضی اللہ عنہ کو مقدم کر دیا اور وہ اس معاملہ میں متہمم بھی ہیں۔ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھما ان سے لڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے ان کی بیعت سے انکار کیا، بعد ازاں معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔
اس کے بعد تمہارے باپ نے پھر خلافت کی تمنا کی اور لڑے۔ ان سے ان کے ساتھی جدا ہو گئے اور حکم مقرر کرنے سے پہلے ان کے ہوا خواہ ان کے مستحق ہونے کی بابت مشکوک ہو گئے، پھر انہوں نے رضا مندی سے دو اشخاص کو حاکم مقرر کیا۔ ان دونوں نے ان کی معزولی پر اتفاق کر لیا، پھر حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے۔ انہوں نے خلافت کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کپڑوں اور درہموں کے عوض فروخت کر ڈالا اور اپنے
ہواخواہوں کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا اور حکومت نا اہل کو سونپ دی۔
پس اگر اس میں تمہارا کوئی حق بھی تھا تو تم اس کو فروخت کر چکے اور قیمت وصول کر لی، پھر تمہارے چچا حسین رضی اللہ عنہ نے ابن مرجانہ (ابن زیاد) پر خروج کیا۔ لوگوں نے تمہارے چچا کے خلاف اس کا ساتھ دیا، یہاں تک کہ لوگوں نے تمہارے چچا کو قتل کیا اور ان کا سر کاٹ کر اس کے پاس لے آئے، پھر تم لوگوں نے بنو امیہ پر خروج کیا۔ انہوں نے تم کو قتل کیا۔ خرما کی ڈالیوں پر سولی دی، آگ میں جلایا، شہر بدر کر دیا۔ یحییٰ بن زید کو خراسان میں قتل کیا، تمہارے ذکور کو قتل کیا، لڑکوں اور عورتوں کو قید کر لیا اور بغیر پردہ کے اونٹوں پر سوار کرا کے تجارتی لونڈیوں کی طرح شام بھیج دیا۔ یہاں تک کہ ہم نے ان پر خروج کیا اور ہم نے تمہارا معاوضہ طلب کیا۔
چنانچہ تمہارے خونوں کا بدلہ ہم نے لے لیا اور ہم نے تم کو ان کی زمین و جائیداد کا مالک بنایا۔ ہم نے تمہارے بزرگوں کو فضیلت دی اور معزز بنایا۔ کیا تم اس کے ذریعہ سے ہم کو ملزم بنانا چاہتے ہو؟ شاید تم کو یہ دھوکا لگا ہے کہ تمہارے باپ کا حمزہ و عباس اور جعفر رضی اللہ عنھم پر مقدم ہونے کی وجہ سے ہم ذکر کیا کرتے تھے۔ حالانکہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے، وہ بات نہیں ہے۔ یہ لوگ تو دنیا سے ایسے صاف گئے کہ سب لوگ ان کے مطیع تھے اور ان کے افضل ہونے کے قائل تھے، مگر تمہارا باپ جدال و قتال میں مبتلا کیا گیا۔
بنو امیہ ان پر اسی طرح لعنت کرتے تھے جیسے کفار پر نماز فرائض میں کی جاتی ہے۔ پس ہم نے جھگڑا کیا، ان کے فضائل بیان کیے، بنو امیہ پر سختی کی اور ان کو سزا دی۔ تم کو معلوم ہے کہ ہم لوگوں کی بزرگی جاہلیت میں حجاج کے پانی پلانے کی وجہ سے تھی اور یہ بات تمام بھائیوں میں صرف عباس رضی اللہ عنہ ہی کو حاصل تھی۔ تمہارے باپ نے اس کے متعلق ہم سے جھگڑا کیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا۔ پس اس کے مالک جاہلیت اور اسلام میں ہم ہی رہے۔ جن دنوں مدینہ میں قحط پڑا تھا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے پانی مانگنے میں ہمارے ہی باپ کے ذریعہ سے توسل کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے پانی برسایا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم، حدیث ۳۷۴۶۔)
حالانکہ تمہارے باپ اس وقت موجود تھے، ان کا توسل نہیں کیا۔ تم جانتے ہو کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات پائی تو بنی عبدالمطلب میں سے کوئی شخص سوائے عباس رضی اللہ عنہ کے باقی نہ تھا۔ پس وراثت چچا کی طرف منتقل ہو گئی، پھر بنی ہاشم میں سے کئی شخصوں نے خلافت کی خواہش کی، مگر سوائے عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کے کوئی کامیاب نہ ہوا۔ سقایت تو ان کی تھی ہی، نبی ﷺ کی میراث بھی ان کی طرف منتقل ہو گئی اور خلافت ان کی اولاد میں آ گئی۔ غرض دنیا و آخرت اور جاہلیت واسلام کا کوئی شرف باقی نہ رہا، جس کے وارث و مورث عباس رضی اللہ عنہ نہ ہوئے ہوں۔ جب اسلام شائع ہوا تو عباس رضی اللہ عنہ کو بہ اکراہ نہ نکالا جاتا تو ابو طالب وعقیل بھوکے مر جاتے اور عروہ وشیبہ کے برتن چاٹتے رہتے، لیکن عباس رضی اللہ عنہ ان کو کھانا کھلا رہے تھے۔ انہوں نے ہی تمہاری آبرو رکھی، غلامی سے بچایا۔ کھانے، کپڑے کی کفالت کرتے رہے، پھر جنگ بدر میں عقیل کو فدیہ دے کر چھڑایا۔
پس تم ہمارے سامنے کیا تفاخر جتاتے ہو۔ ہم نے تمہارے عیال کی کفر میں بھی خبر گیری کی، تمہارا فدیہ دیا، تمہارے بزرگوں کی ناموس کو بچایا اور ہم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے وارث ہوئے۔ تمہارا بدلہ بھی ہم نے لیا اور جس چیز سے تم عاجز ہو گئے تھے اور حاصل نہ کر سکتے تھے، اس کو ہم نے حاصل کرلیا۔ والسلام۔''
==================